اسرائیل، امریکہ، برطانیہ نے سعودی عرب کو جنگ یمن میں جھونکا ہے، بدرالدین الحوثی
یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کو جنگ یمن کا اصل محرک قرار دیا ہے۔ یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے یمنی عوام کے خلاف وحشیانہ جارحیت کے ساتویں برس کے آغاز پر اعلان کیا ہے کہ تمام حقائق آشکار ہو جانے کے باوجود سعودی عرب نے اب بھی ہوش کے ناخون نہیں لئے اور درس عبرت حاصل نہیں کیا ۔
انصاراللہ کے سربراہ کی تقریر کے اہم نکات
امن کا راستہ واضح ہے، جارحیت بند اور محاصرہ ختم کردو
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ نے جنگ یمن کے اخراجات اور نقصانات سے بچنے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اس جنگ کی آگ میں جھونکا ہے۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ تمام تر حقائق سامنے آجانے کے باوجود سعودی عرب نے اب تک اس جنگ سے عبرت حاصل نہیں کی۔
انصاراللہ کے سربراہ نے کہا کہ جنگ یمن کا مرکزی کردار سعودی عرب ہے اور متحدہ عرب امارات اس کا ساتھ دے رہا ہے جبکہ ان کے اتحادی باقی ممالک ان دونوں ملکوں کے کاسہ لیس ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے کردار پر بھی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی جارح سعودی اتحاد، اخلاقی، میدانی اور سیاسی ناکامی سے دوچار ہونے لگتا ہے تو اقوام متحدہ بیچ میں کود پڑتا ہے اور یمنیوں سے کہا جاتا ہے کہ جنگ بند کردو۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی کا کہنا تھا کہ سعودی جارحیت کو ایک خودسر اور ضدی شخص کی ذاتی انا اور غلطی قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ جارح قوتوں کو ہر قسم کی ٹیکنالوجیکل سپورٹ حاصل ہے جو ان کے اہداف کو پوری طرح واضح کرتی ہے- خودسر اور ضدی شخص سے ان کا اشارہ سعودی ولی عہد بن سلمان کی طرف تھا۔
انہوں نے کہا کہ جارح قوتوں کا ایک خطرناک ترین منصوبہ یمنیوں میں پھوٹ ڈالنا اور اس ملک کو نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے.
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ کو یمن کے خلاف جارحیت کا آغاز اور مشرق وسطی کے اس غریب عرب اور اسلامی ملک کا فضائی اور سمندری محاصرہ شروع کیا تھا۔
سعودی جارحیت کے نتیجے میں تینتالیس ہزار یمنی شہری شہید و زخمی ہوئے ہیں جبکہ چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں جنھیں بے سروسامانی کے علاوہ بیماریوں اور بھوک مری کابھی سامنا ہے۔
عین الانسانیہ انسانی حقوق مرکز نے بھی اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چھے سال کے دوران تین ہزار آٹھ سو اکیس بچے اور دو ہزار تین سو چورانوے عورتیں شہید اور چار ہزار ایک سو تراسی بچے اور دو ہزار آٹھ سو پندرہ خواتین زخمی ہوئی ہیں۔یمنی عوام کے خلاف مسلط کردہ اس جنگ میں عام شہریوں کے جانی نقصان کے علاوہ مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا ہے جس کی بنیاد پر مغربی ایشیا کے اس غریب ترین ملک میں اور بھی زیادہ مسائل و مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔