فلسطینی گروہوں کے بارے میں سلامتی کونسل کا ناکام اجلاس
امریکی رخنہ اندازیوں کے باعث فلسطین کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکسی نتیجے کے ختم ہوگیا -
چین ، ناروے اور تیونس کے مطالبے پر فلسطینیوں پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آنلائن ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تاہم امریکی مداخلت اور رخنہ اندازیوں کی بنا پر ناکام ہوگیا اور صیہونی حکومت کی مذمت میں کوئی مشترکہ بیان جاری نہ ہوسکا۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران اس سلسلے میں یہ تیسرا اجلاس تھا ۔
اس سے قبل بھی فلسطین کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کے دو اجلاس منعقد ہوئے تاہم امریکہ نے صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت نہیں ہونے دی تھی اور اجلاس کوئی مشترکہ بیان جاری کئے بغیر ختم ہوگیا۔
اتوار کی رات کے اجلاس میں فلسطینی انتظامیہ کے وزیرخارجہ ریاض مالکی نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر اسرائیل کے حملوں کو جنگی جرائم کے مترادف قرار دیا اورسلامتی کونسل سے تل ابیب کے خلاف اسلحہ جاتی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
ریاض مالکی نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیل ایک ایسا مسلح چور ہے جو ہمارے گھروں میں گھس گیا ہے ، گھر والوں کو قتل کررہا ہے اور گھروں کو ڈھا رہا ہے اور ہمارے عوام کو نسل در نسل کچل رہا ہے ۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترش نے اس اجلاس میں غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں اور عام فلسطینی شہریوں کے قتل عام کی کوئی مذمت کئے بغیرغزہ کے حالات پر افسوس کا اظہار کیا اور دونوں فریقوں سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
دوسری جانب چین کے وزیرخارجہ وانگ ای نے اجلاس میں امریکی موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن کی رخنہ اندازیوں کے باعث سلامتی کونسل ہم آواز ہوکر بات نہیں کرسکی ۔
رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سابقہ اجلاسوں میں سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین میں سے چودہ نے صیہونی حکومت کی مذمت میں مشترکہ بیان جاری کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
درحقیقت ستّرسے زیادہ برسوں کی خاموشی اور سیاسی پسپائی کے باعث جرائم پیشہ صیہونی حکومت کو یقین ہوگیا ہے کہ اسے کسی کو اپنے جرائم کا جواب نہیں دینا ہوگا اورکسی طرح کی سزا بھی نہیں ہونے والی ہے ۔
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے اس سوال کے جواب میں کہ سلامتی کونسل صیہونی حکومت کے اس طرح کے جرائم پر ایک عرصے سے خاموش کیوں ہے کہا کہ اس کا جواب بہت آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ امریکہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور چاہے رپبلیکن کا دورحکومت ہو یا ڈیموکریٹ کا ، امریکا منظم طریقے سے سلامتی کونسل کے ہر اقدام کے مقابلے میں اسرائیلی حکومت کی حمایت کرتا ہے اور اب تک اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی چوالیس قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے.
ایران کی عدلیہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے بھی اس لاپرواہی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام ایک خط بھیج کر کہا ہے کہ ذمہ داری تسلیم کرنے اورحساب و کتاب کے نام سے موسوم اس دور میں صیہونی حکومت کی جارحیتوں کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے دو پہلو بیانات جاری کرنا ، اس طرح کے جرائم دہرائے جانے کا اصلی عامل ہے۔