کیا غزہ جنگ ، ایران میں اسرائیلی شر انگیزی اور شام میں حملوں کا جواب تھی ؟ حزب اللہ نے کیوں نہیں حصہ لیا اس جنگ میں ؟ ایک جائزہ
لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر اور معروف عرب صحافی عبد الباری عطوان نے غزہ کی حالیہ جنگ اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے جو خالی از لطف نہیں ۔ یہ ان کے عربی مقالے کا اردو ترجمہ اور مقالہ نگار کی ذاتی رائے ہے ۔
میزائیلوں کی انتفاضہ تحریک کامیاب ہو چکی ہے، اسرائيل ، ناکام ہونے کے بعد میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ہے اب سوال یہ ہے کہ اس فتح کا تحفظ کیسے ہو اور پھر یہ کہ غزہ کی تعمیر نو کس طرح کی جائے اور وہ جو چار ہزار میزائیل فائر کئے گئے اور جنہوں نے جنگ میں اہم کردار ادا کیا ، انہیں پھر سے کیسے بنایا جائے ؟
ہمارے خیال میں اب بڑا جہاد شروع ہو گيا ہے ، اب اگلی جنگ کی تیاری شروع کرنے کا وقت ہے جو کسی بھی طرح سے اس جنگ سے کم خطرناک نہيں ہے یعنی فلسطینیوں کی فتح کے دشمنوں اور امریکہ و اسرائيل کی پانچویں بریگیڈ سے مقابلہ کرنا ہے جو اس فتح کو ہائی جیک کرنے، فتنہ انگیزی اور استقامتی محاذ میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں افسوس ہے کہ اس سلسلے میں کچھ عربوں بلکہ کچھ فلسطینیوں کا بھی اہم کردار ہے ، اصل میں جنگ نے فلسطینوں کو متحد کر دیا ہے لیکن امن اور جنگ بندی پھر سے الگ الگ کر دے گی ۔
بہت سے لوگوں کو یہ علم نہیں ہوگا کہ غزہ نے جو فتح حاصل کی ہے وہ استقامتی محاذ کے ساتھ ہم آہنگی کا نتیجہ ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ حزب اللہ یا ایران یا پھر یمن کے انصار اللہ نے جو اس جنگ میں حصہ نہيں لیا، تو وہ در اصل اس لئے تھا کیونکہ غزہ کی فلسطینی تنظیموں نے ان سے یہی اپیل کی تھی تو ہم نے حقیقت میں کسی بڑے راز سے پردہ نہيں ہٹایا ۔ در اصل اس قسم کی اپیل کی وجہ یہ تھی تاکہ فتح ، پوری طرح سے فلسطینی ہو ، اسرائيل دنیا کی نظروں میں " مظلوم " نہ بنے اور عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت جاری رہے یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں فلسطینیوں کے لئے مظاہرے ہوئے جس کی مثال ہم نے سن دو ہزار تین میں عراق جنگ اور سن دو ہزار چھے میں لبنان جنگ کے بعد نہيں دیکھی ۔
فتح کے جشن میں بہت سے لوگ یہ بھول رہے ہیں کہ غزہ میں استقامتی رہنماؤں نے اس جنگ کا فیصلہ کیا اور اسدود ، عسقلان اور تل ابیب پر میزائيلوں کی بارش کا فیصلہ خود انہوں نے کیا تھا وہ بھی اتنی تعداد میں جس سے آئرن ڈوم دھوکا کھا جائے اور بے کار ہو جائے ۔
ہو سکتا ہے کچھ لوگ ہماری اس رائے سے اختلاف کریں کہ غزہ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے اصل میں نطنز کی ایٹمی تنصیبات پر موساد کے حملوں اور شام میں مختلف ٹھکانوں پر اسرائيل کے ایک ہزار میزائيلی حملوں کا بدلہ بھی لیا ہے ۔ یہ نظریہ ، دو اہم واقعات سے پیدا ہوتا ہے ۔
پہلا یہ کہ شام کے صدر بشار اسد نے حماس اور اس کی فوجی شاخ کے لئے اپنے ملک اور دل کے دروازے پھر سے کھول دیئے ہیں یہ در اصل اس کی خدمات کو سلام کرنے جیسا ہے اور اس طرح سے پرانے اختلافات اور زخم بھلا کر شام اور حماس کے درمیان تعاون کا نیا دور شروع ہو رہا ہے ۔
دوسرا یہ کہ ایران نے ایک نئے ڈرون طیارے کی رونمائي کی ہے جس کا نام غزہ رکھا گيا ہے تاکہ غزہ کی فتح کو یاد رکھا جائے یہ در اصل اسماعیل ہنیہ کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے سپریم لیڈر کا استقامتی تنظیموں کی حمایت کے لئے شکریہ کا جواب ہے۔
مقابلے کے اگلے دور کی تیاری کا وقت ، جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی شروع ہو گيا ہے اور سب سے پہلا مشن ان چار ہزار با برکت میزائیلوں کی خالی جگہ بھرنا ہے جنہوں نے ساٹھ لاکھ اسرائيلیوں کو پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور کر دیا اور جن کی وجہ سے صیہولی حکومت کے سارے ایئرپورٹ بند ہو گئے اور وہ پوری دنیا سے کٹ گئی ۔
استقامتی محاذ سے قریب ایک با خبر ذریعے نے ہمیں بتایا ہے کہ غزہ کی فلسطینی تنظیموں کے پاس، اس سے پانچ گنا زیادہ میزائيل موجود ہیں اور چونکہ غزہ کا محاصرہ ہے اس لئے چار ہزار میزائیلوں کی جگہ بھرنے میں کم سے کم دو سال کا عرصہ لگے گا لیکن اس بار جو میزائيل بنائے جائيں گے وہ پہلے والے میزائیلوں سے زيادہ خطرناک اور ماڈرن ہوں گے۔
نسل پرستی پر مبنی صیہونی خواب چکناچور ہو رہا ہے ، وہ بھی بڑی تیزی سے ، خاص طور پر غزہ جنگ کے بعد ۔ غزہ فلسطین کا اسپارٹا بن گيا ہے جس کا کل رقبہ ڈیڑھ سو میل سے زیادہ نہيں اور جہاں نہ جنگل ہیں نہ پہاڑ لیکن پھر بھی اسرائيل کو بد ترین حالات سے دوچار کر دیا ہے ۔ اب اسرائیل اپنے حلیفوں پر بوجھ بن گیا ہے انشاء اللہ بڑی فتح آنے والی ہے ۔