Jul ۱۵, ۲۰۲۱ ۱۳:۱۹ Asia/Tehran
  • ترکی اور تل ابیب کے درمیان پینگیں بڑھنے لگیں

ترکی حکمراں جماعت نے غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں فروغ کا عزم ظاہر کرتے ہوئے فلسطین اور قبلۂ اول کے ساتھ اپنی دوغلی پالیسی سے ایک بار پھر نقاب کشائی کر دی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی طرز پر امت اسلامیہ کی قیادت سنبھالنے کے خواب کو تعبیر دینے کے لئے ترک صدر سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ترکی کی حمکراں پارٹی کے ترجمان نے کہا ہے انقرہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں تل ابیب کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتا ہے۔

ترکی کی حمکراں جماعت حز‍ب عدالت کے ترجمان عمر چلیک نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے صیہونی حکومت کے صدر کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کے بعد انقرہ اور تل ابیب کے درمیان مسائل کے حل اور تعلقات میں بہتری لانے کے لئے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

عمر چلیک مزید کہا کہ ترکی فلسطین سمیت مختلف امور خصوصا سیاحت اور تجارت کے شعبے میں صیہونی حکومت کے ساتھ بات چيت کرنا چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ 2018 میں امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کئے جانے پر مبنی ٹرمپ کے اقدام کے بعد انقرہ نے صہیونی حکومت کے سفیر کو ترکی سے نکال دیا تھا، اس کے بعد سے ہی تل ابیب اور انقرہ میں دونوں حکومتوں کے سفیر نہیں تھے۔

پیر کے روز ترکی صدر رجب طیب اردوغان نے "اسحاق ہرٹزوگ" ٹیلی فون کرکے انہیں بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کا صدر بننے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ انقرہ اور تل ابیب کے درمیان تعلقات مغربی ایشیا کے خطے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔

ترکی کی حکمراں جماعت عدالت پارٹی اور ذاتی طور رجب طیب اردغان کی صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی بحالی نے سلطنت عثمانیہ کی طرز پر مسلم امہ کی قیادت سنبھالنے کے ان کے دیرینہ خواب کی حقیقت عیاں کر دی ہے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ ترک حکام فلسطین کے سلسلے میں کنفیوسڈ اور دوغلی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ایک طرف تو وہ فلسطینی کاز اور عوام کی حمایت کی باتیں کرتے اور وقتا فوقتاً صیہونی حکومت کے خلاف تیور دکھاتے ہیں اور دوسری جانب قبلۂ اول کی غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ سیاحت و تجارت سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات اعلیٰ سطح پر برقرار رکھنے کے خواہشمند بھی رہتے ہیں۔

 

 

ٹیگس