افغانستان کے بارے میں روس اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک کا بیان
وسطی ایشیا میں روس کا کوئی بھی اتحادی ملک افغانستان سے باہر نکلنے والے امریکی افوج کی میزبانی کا ارادہ نہیں رکھتا؛ روسی وزیرخارجہ کا بیان
روس اور وسطی ایشیا کے پانچ ممالک نے ایک بیان جاری کر کے افغانستان میں قیام امن کے لئے بین الافغان مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا ہے
روس اور وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کے وزرائے خارجہ نے تاشقند میں ملاقات و گفتگو کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے ہی اس ملک کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
وسطی ایشیا کے جن پانچ ممالک نے افغانستان میں قیام امن کے حصول کے لئے بین الافغان مذاکرات کی اپیل کی ہے وہ ، قزاقستان ، قرقیزستان ، تاجکستان ، ترکمنستان اور ازبکستان ہیں ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے قبل روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے ملکوں کی بین الاقوامی کانفرنس میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وسطی ایشیا میں روس کا کوئی بھی اتحادی ملک افغانستان سے باہر نکلنے والے امریکی فوج کی میزبانی کا ارادہ نہیں رکھتا ۔
دوسری طرف امریکہ افغانستان سے باہر نکلنے کے دعوے کے بہانے یہ کوشش کر رہا ہے کہ علاقے میں اپنا اثر و نفوذ برقرار رکھنے کے لئے حتی الامکان افغانستان کے کسی شمالی پڑوسی ملک کو اپنے فوجیوں کی میزبان اورانھیں جگہ دینے کے لئے تیار کرلے اور اس سلسلے میں اس نے پاکستان سے بھی مدد مانگی ہے-
درایں اثنا افغانستان کے صوبہ جوزجان میں طالبان اور فوج کے درمیان شدید جنگ جاری ہے اور جھڑپوں کے دوران دسیوں طالبان جنگجووں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی خبر ہے۔ افغانستان کی وزارت دفاع نے سنیچر کو ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ صوبہ جوزجان کے شہر شبرغان کے قریب افغان فوج اور طالبان کے درمیان تازہ ترین جھڑپ کے دوران افغان فوج کی حمایت میں عوام کے اٹھ کھڑے ہونے کے نتیجے میں اکیاسی طالبان ہلاک اور دسیوں زخمی ہوئے ہیں- ہلاک ہونے والوں میں طالبان کے چھے کمانڈر بھی شامل ہیں- افغانستان کی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج کے اس آپریشن میں بڑی مقدار میں اسلحہ اور فوجی ساز و سامان بھی افغان فوج اورسیکورٹی اہلکاروں کو حاصل ہوا ہے- افغانستان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ صوبہ بامیان میں فوج کی کارروائیوں میں ضلع والسوالی طالبان کے کنٹرول سے خارج ہوگیا اور اب اس پر فوج کا کنٹرول ہے۔ افغان وزرات دفاع کے مطابق اس کارروائی کے دوران طالبان کو بھاری جانی نقصان ہوا ہے اور بڑی مقدار میں اس کے فوجی ساز و سامان بھی تباہ ہوگئے ہیں-
گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران افغان فوج اور طالبان کے درمیان سخت ترین محاذ آرائی اور جنگ صوبہ قندھارکے ضلع اسپین بولدک میں ہوئی ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے جمعے کو پاکستان سے ملحقہ افغانستان کی یہ سرحدی گذرگاہ طالبان سے چھین لینے کی خبردی تھی لیکن طالبان نے حکومت کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ طالبان نے تین روز پہلے اسپین بولدک پر قبضہ کرلیا تھا ۔نہایت اہم سرحدی گذرگاہ اسپین بولدک پر طالبان کا قبضہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا باعث بھی بن گیا ہے۔ افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا کہ پاکستان نے افغانستان کو سرکاری طور پر انتباہ دیا تھا کہ اس گزرگاہ کو واپس لینے کے لئے کسی بھی کارروائی کا پاکستانی فضائیہ کی جانب سے سخت جواب دیا جائے گا ۔ امراللہ صالح کے اس بیان کی پاکستانی وزارت خارجہ نےسختی سے تردید کی ہے ۔افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے بھی تاشقند کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان پر طالبان کی حمایت کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ طالبان کو طاقت کے بل پر کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ انھوں نے کہا کہ بقول ان کے پاکستان سے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ہیں ۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے افغان صدر کے اس الزام کو افسوسناک بتایا ہے۔