کابل میں سخت سیکورٹی اقدامات
افغانستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری افواج اور طالبان کے درمیان جنگ جاری ہے ۔ اسی کے ساتھ افغان دارالحکومت کابل میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان سیکورٹی اہلکاروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں موبائل چیک پوسٹیں قائم کر کے سیکورٹی کے اقدامات سخت کر دیئے ہیں۔
روسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغان سیکورٹی اہلکار، امد و رفت کرنے والے شہریوں سے شناختی کارڈ اور پہچان کی دستاویزات بھی چیک کر رہے ہیں۔ کابل میں قائم کی جانے والی چیک پوسٹوں پر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ بکتر بند گاڑیاں بھی تعینات کی گئی ہیں۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کے بعد سے ہی طالبان گروہ کی مسلسل پیش قدمی کے نتیجے میں کابل میں سیکورٹی کی صورت حال کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی رہی ہے اور حالات نہایت سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کی سرکاری افواج نے طالبان حملوں کو پسپا کرتے ہوئے ہرات صوبے سے اس گروہ کے عناصر کا صفایا کرنا شروع کر دیا ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ڈپٹی ترجمان فواد امان نے اعلان کیا ہے کہ ہرات شہر کے اطراف کے علاقوں میں طالبان کے حملے شکست سے دوچار ہو گئے ہیں اور افغانستان کی فوج سیکورٹی اہلکاروں نیز عوامی رضاکار فورس کے جوانوں نے شہر کے کئی علاقوں اور اسی طرح انجیل اور پل پختون راستے کو طالبان کے عناصر سے پاک کر دیا ہے۔
ہرات کے طبی محکمے کے ایک اعلی عہدیدار ابراہیم محمدی کا کہنا ہے کہ ہرات کی حالیہ جھڑپوں میں کم سے کم پانچ افراد ہلاک اور انیس دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ ہرات کے ایک باخبر ذریعے نے بھی امریکی جنگی طیاروں کی جانب سے ہرات میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری اور مختلف ٹھکانوں پر افغان فوجیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی خبر دی ہے۔
دریں اثنا افغانستان کی اعلی قومی مصالحتی کونسل کی رکن اور صوبے بدخشان کی سابق نمائندہ نے تاجیکستان سے ملنے والے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں داعشی دہشت گرد عناصر کی تعیناتی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فوزیہ کوفی نے کہا ہے کہ بدخشان کے مختلف علاقوں میں داعشی عناصر تعینات ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دہشت گردوں میں غیر ملکی عناصر بھی شامل ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ لیبیا اور شام سے افغانستان کے ان علاقوں میں منتقل ہوئے ہیں۔
فوزیہ کوفی نے کہا کہ افغانستان کے صوبے بدخشان کے مختلف علاقوں میں داعشی دہشت گرد عناصر کی تعیناتی اگر مستحکم ہو گئی تو افغانستان کی صورت حال اور زیادہ ابتر ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں پر طالبان عناصر کے تیز رفتار حملوں کے بعد اس ملک کے ایک وسیع و عریض علاقے پر اس گروہ کا قبضہ ہو گیا ہے۔