امر اللہ صالح نے طالبان کے سامنے تسلیم نہ ہونے کا اعلان کیا، طالبان مخالف مزاحمتی گروہوں کا درہ پنجشیر میں اجتماع، بغلان کے کئی اضلاع بھی طالبان کے قبضے سے آزاد
ایک طرف کابل میں طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کے پہنچنے کے بعد حکومت کی تشکیل کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور دوسری طرف مفرور صدر اشرف غنی کے نائب امراللہ صالح نے اعلان کیا ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق وہ ملک کے سربراہ ہیں۔ اسی کے ساتھ بعض شہروں سے جھڑپوں کی بھی خبریں ملی ہیں جبکہ عوامی فوج کے جوان درہ پنجشیر میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں،
افغانستان کے مفرور صدر اشرف غنی کے نائب امراللہ صالح نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ طالبان کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ طاقت کے بل پر حاصل ہونے والا اقتدار قانونی نہیں ہو سکتا اور وہ اس گروہ کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ امراللہ صالح نے مزید کہا کہ افغان عوام کو اس بات کا موقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل اور حکومت کی نوعیت کا فیصلہ خود کریں۔ انھوں نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ افغانستان کے آئین کے مطابق اس وقت وہ افغانستان کے قائم مقام صدر ہیں۔
درایں اثنا آوا نیوز ایجنسی نے بغلان کی صوبائی کونسل کے ایک رکن کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ شمالی افغانستان کے صوبہ بغلان کے عوام نے ایک بڑی کارروائی انجام دے کر اندراب، بنو، دہ صلاح اور پل حصار نامی اضلاع کو طالبان سے واپس لے لیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صوبہ بغلان کی صوبائی کونسل کے رکن فیروز الدین ایماق نے کہا ہے کہ بغلان کے ان چاروں اضلاع کے عوام ایسی حالت میں طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ طالبان نے ان کے ساتھ کافی زیادتی کی، ان کے گھروں پر چھاپے مارے اور ہتھیاروں کو جمع کرانے کی کوشش کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کارروائیوں میں عوامی فورس نے چھبیس طالبان کو گرفتار کرلیا ہے۔ طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے افراد احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور خود ساختہ قائم مقام صدر امراللہ صالح کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔
درایں اثنا آریانا نیوز نے رپورٹ دی ہے کہ عوامی فورس اور افغان فوج کے جوان طالبان کے خلاف لڑنے کے لئے شمال مشرقی افغانستان کے درہ پنجشیر میں جمع ہو رہے ہیں۔
شمال مشرقی افغانستان کے درہ پنجشیر کے علاوہ اس وقت دارالحکومت کابل سمیت پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کے کابل پہنچنے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے لئے سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے قانونی، مذہبی اور خارجہ پالیسی کے ماہرین نئی حکومت کے خدوخال کے بارے میں صلاح و مشورہ کر رہے ہیں اور اس کے نتائج آئندہ چند روز میں میڈیا کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔