پنجشیر میں طالبان اور احمد مسعود کی فورس کے درمیان جنگ شروع
افغانستان کی وادی پنجشیر میں طالبان اور احمد مسعود کی مزاحمتی فورس کے درمیان جنگ شروع ہوگئی ہے جس کے دوران مزاحمتی فورس نے تین سو طالبان کو ہلاک کرنےکا دعوی کیا ہے، البتہ طالبان نے اپنے جانی نقصان کی تردید کی ہے۔
افغانستان کے علاقے پنجشیر کے لئے طالبان اور شمالی مزاحمتی فورس کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی ہے۔ مزاحمتی فورس نے تین سو طالبان کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن طالبان نے جانی نقصان کی تردید کی ہے۔
مزاحمتی فورس کا حصہ بنے افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح کے مطابق طالبان نے وادی پنجشیر کے داخلی راستے کے قریب اپنے افراد کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل طالبان کو وادی اندراب میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا - ان کا کہنا تھا کہ مزاحمتی فورس نے سالنگ ہائے وے کو بند کردیا ہے۔
اس سےقبل طالبان گروہ نے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا ہے کہ اس کے سیکڑوں کی تعداد میں جنگجو صوبے پنجشیر کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس اقدام کی وجہ یہ ہے کہ پنجشیر کے مقامی حکام نے پرامن طریقے سے اس صوبے کو طالبان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
دوسری جانب قطر میں طالبان گروہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ایک بیان میں پنجشیر پر حملہ کرنے کے لئے طالبان کے اعلان آمادگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا مقصد افغانستان کو متحد رکھنا ہے اس لئے کہ ایک ساتھ کئی سسٹم باقی نہیں رکھے جا سکتے مگر بعض افراد مزاحمت کرنا چاہتے ہیں اور آخری راستہ یہی ہے کہ مسئلے کو فوجی طریقے سے حل کیا جائے۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب شمالی افغانستان میں قومی محاذ کے ہیرو احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے طالبان گروہ کے پنجشیر میں داخلے پر سخت خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں پنجشیر کے مقامی لوگوں اور افغانستان کی سابقہ حکومت کی حمایت حاصل ہے، تاہم وہ مذاکرات کی آمادگی رکھتے ہیں۔
افغانستان کے قومی ہیرو کے بیٹے نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ جامع حکومت کی تشکیل کی غرض سے مذاکرات پر آمادہ ہیں لیکن زور زبردستی کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں ۔احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے کہا ہے کہ انہیں طالبان کے ساتھ صلح اور مشترکہ حکومت میں دلچسپی ہے لیکن زور و زبردستی قبول نہیں کریں گے۔
احمد مسعود نے الشرق الاوسط سے ایک گفتگو میں کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ صلح کے لئے اپنے باپ کے خون کو بھی فراموش کرنے پر تیار ہیں کیونکہ انہیں افغانستان کی پائیداری اور سیکوریٹی سے دلچسپی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم طالبان سے گفتگو کے لئے تیار ہیں اور ان سے رابطے میں ہیں، یہاں تک کہ میرے والد نے بھی طالبان سے بات چیت کی تھی ۔احمد مسعود نے کہا کہ ان حالات میں طالبان، ہتھیاروں کے زور پر اپنی خواہش مسلط کرنا چاہتے ہیں اور یہ چیز ہم قبول نہیں کر سکتے۔
احمد مسعود نے واضح کیا کہ ہم جنگ کے خواہاں نہیں ہیں لیکن اگر طالبان پنج شیر میں داخل ہوئے تو ہم ان سے جنگ کریں گے۔
واضح رہے کہ شمالی افغانستان کا پنج شیر صوبہ اب بھی طالبان کے تسلط سے بچا ہوا ہے۔
ادھر طالبان نے ان ایک سو ستتر فوجی اہلکاروں کو رہا کر دیا جنھیں حالیہ جھڑپوں کے دوران گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ان فوجی اہلکاروں کو صوبہ فاریاب سے گرفتار کیا گیا تھا۔