افغانستان میں میڈیا کو درپیش مسائل و مشکلات
افغانستان میں ڈیڑہ سو سے زیادہ ذرائع ابلاغ نے کام کرنا بند کردیا ہے اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک مہینے میں اطلاعات تک ان کی دسترس بھی محدود ہوگئی ہے
طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کو اقتدار میں آئے ہوئے ایک مہینے کا عرصہ گزر رہا ہے لیکن وعدوں کے باوجود ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے لئے اطلاعات اور خبروں کے حصول میں درپیش مشکلات اور پابندیاں سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہیں۔
افغان ذرائع ابلاغ کو درپیش مالی مسائل اور آمدنی کے ذرائع میں کمی اس ملک میں تجربہ کار صحافیوں کے بے روزگار ہو جانے اور یہاں سے چلے جانے کی ایک وجہ ہے۔ رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں ایک سو ترپن ٹی وی ریڈیو اخبارات اور آنلائن ذرائع ابلاغ کی سرگرمیاں بند ہوگئی ہیں۔
ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور آنلائن ذرائع ابلاغ افغانستان میں گذشتہ بیس برس کے ثمرات و نتائج شمار ہوتے ہیں لیکن صرف ایک مہینے کے اندر مختلف وجوہات خاص طور سے بجٹ کی کمی کی بنا پر دسیوں ذرائع ابلاغ نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کی معروف شیعہ ہزارہ شخصیت نے کہا ہے کہ طالبان نے اگر اپنی یکطرفہ اور جانبدارانہ پالیسیاں جاری رکھیں تو انھیں مسلح عوامی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ المیادین ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق محمد کریم خلیلی نے مزید کہا کہ اگر طالبان گروہ نے اپنے وعدوں پر عمل نہ کرتے اور استبداد ترک نہ کیا تو ہزارہ برادری اس گروہ کا مسلحانہ مقابلہ کرے گی۔
محمد کریم خلیلی نے مزید کہا کہ طالبان کی عبوری کابینہ بالکل وسیع البنیاد نہیں ہے اوراس کا جاری رہنا دیگر نسلی گروہوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ طالبان نے منگل کو اپنی عبوری کابینہ میں توسیع کرتے ہوئے چند باقی ماندہ وزارتخانوں کے وزیروں اور نائب وزیروں کو متعارف کرایا ہے۔
طالبان کی صرف مردوں پرمشتمل کابینہ پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے اعتراض اور تنقید کے باوجود اس بار جب کابینہ کی توسیع کی گئی ہے تو بھی اس میں کوئی خاتون موجود نہیں ہے۔