ہم پر دباؤ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے: طالبان
افغانستان میں طالبان کی وزات خارجہ نے عالمی برادری سے طالبان گروہ پر دباؤ نہ ڈالنے کی اپیل کی ہے۔
آوا خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے عبوری وزیر امیر خان متقی نے کہا ہے کہ عالمی اداروں اور دنیا کے تمام ملکوں کو اس بات کو جان لینا چاہئے کہ طالبان پر ڈالے جانے والے دباؤ سے اس گروہ کی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ طالبان اور مختلف ملکوں کے درمیان مستحکم اقتصادی تعلقات، علاقے اور پوری دنیا کے مفاد میں ہیں اور پورے علاقے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
طالبان عبوری حکومت کے نائب صدر مولوی عبد السلام نے بھی مختلف ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں اب خوف و ہراس پیدا کرنے والوں کی کوئی جگہ نہیں اور افغانستان کو اب کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ عالمی برادری نے واضح کر دیا ہے کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل اور انسانی و خواتین کے حقوق کا احترام کئے جانے کی صورت میں ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان سے ہی ایک اور خبر یہ ہے کہ طالبان گروہ نے امریکہ کی سرکردگی میں افغانستان پر حملہ کرنے والے ملکوں سے تاوان وصول کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ طالبان گروہ نے اعلان کیا ہے کہ جلد ہی حملہ آور ملکوں سے تاوان کا مطالبہ کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں برطانیہ کی وزارت جنگ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی فوج کے حملے میں مارے جانے والے گھرانوں کو وہ تاوان ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ طالبان گروہ نے برطانیہ کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ ییس برس کے دوران غیر ملکی افواج کے حملوں میں مارے جانے والے لوگوں کی فہرست تیار کر کے پیش کردی جائے گی۔
جنگ افغانستان میں مارے جانے والے افراد کے تاوان کا مسئلہ اٹھنے کے ساتھ ہی ایسے گھرانے کے لوگوں نے جو گذشتہ ماہ کابل پر امریکی فضائیہ کے حملے میں مارے گئے ہیں، عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جانی و مالی نقصان اٹھانے والے افغان گھرانوں کے لواحقین کو ان کے مطالبے کا جواب دے اور تاوان دلوائے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک رہائشی مکان پر امریکی فضائیہ کے حملے میں دس عام شہری مارے گئے تھے جن میں سات بچے شامل ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے دو ہزار ایک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن کے قیام کا بہانہ بناتے ہوئے افغانستان پر لشکر کشی کر کے اس ملک پر غاصبانہ قبضہ کرلیا تھا اور اس قبضے کے نتیجے میں اس ملک میں جنگ و خونریزی اور بدامنی نیز اقتصادی تنصیابات کی تباہی کا سلسلہ جاری رہا اور نتیجے میں افغانستان میں بحران اور منشیات کی پیداوار و اسمگلنگ میں اضافہ ہوتا رہا۔
چنانچہ بیس برس کے بعد امریکی فوج نے اگست کے آخر میں اس ملک سے ذلت و رسوائی کے ساتھ انخلا کا عمل انجام دیا اور اس ملک کے لئے اور بھی بہت سے مسائل و مشکلات پیدا کر دیں۔