مسجد الاقصی سے غاصب صیہونیوں کے باہر نکلنے پر فلسطینیوں میں خوشی
فلسطینی نوجوانوں نے مسجد الاقصی کے صحن سے صیہونیوں کے انخلا پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اسی کے ساتھ مزاحمتی فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں نے صیہونیوں کے مقابلے میں تحریک مزاحمت جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔
صیہونی آباد کاروں کے ہمراہ غاصب صیہونی فوجی اتوار کے روز مسجد الاقصی میں داخل ہو گئے اور گھنٹوں وہاں رکے رہے لیکن فلسطینی نمازیوں کی استقامت کے بعد غاصب مسجد الاقصی سے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئے۔
صیہونیوں کے باہر نکلنے کے بعد فلسطینی نوجوانوں نے مسجد کے احاطے میں سجدہ شکر ادا کیا اور مسجد الاقصی سے غاصب صیہونیوں کو نکال باہر کرنے میں اپنی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔
دریں فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے مسجد الاقصی پر صیہونیوں کے حملے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی نوجوان غاصب صیہونیوں کے ظالمانہ اور دہشت گردانہ اقدامات سے مرعوب نہیں ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ مسجد الاقصی صرف مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہے اور یہودیوں کا اس مسجد میں کوئی حق نہیں ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ مسجد الاقصی میں داخل ہونا اس مسجد میں نماز ادا کرنا اور اعتکاف بجا لانا مسلمانوں کا حق ہے جس سے وہ ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ فلسطینی صرف اپنی سرزمین اور اپنے مقدس مقامات کا دفاع کر رہے ہیں اور یہ ان کا فطری حق ہے جسے وہ استقامت و مزاحمت کے ذریعے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تحریک حماس کے ایک اور رہنما حازم قاسم نے بھی اس سلسلے میں کہا کہ مسجد الاقصی سے صیہونیوں کو نکال باہر کرنے کے لئے فلسطینیوں کی جد و جہد جاری رہی اور آخر کار انہیں اس مسجد سے نکال باہر کیاگیا۔ انھوں نے کہا کہ اسی طرح کی جد و جہد تمام فلسطینی علاقوں سے صیہونی غاصبوں کو نکال باہر کرنے کے لئے جاری رہے گی۔
عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کی مرکزی کمیٹی کے رکن اسامہ حاج احمد نے بھی فلسطینیوں میں اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب صیہونی اپنے مذموم مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ مظلوم فلسطینی، صیہونی غاصبوں کی جارحیتوں کے مقابلے میں ہرگز خاموش نہیں رہ سکتے اور وہ مسجد الاقصی اور بیت المقدس کے بارے میں اپنی جد و جہد مزید تیز کریں گے۔
بیت المقدس اور مسجد الاقصی کو ایسی حالت میں جارحیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ یونسکو نے سن دو ہزار سولہ میں ایک قرارداد منظور کر کے بیت المقدس میں مقدس مقامات اور خاص طور سے مسجد الاقصی کے ساتھ یہودیوں کے کسی بھی قسم کے دینی، تاریخی اور ثقافتی رابطے کی سختی سے تردید کی ہے۔