May ۱۰, ۲۰۲۲ ۰۹:۲۴ Asia/Tehran
  • انہدام جنت البقیع سے یمن کی تاراجی تک شیطان کی ڈگڈگی پر تکفیریت کا ننگا ناچ (مقالہ)

دنیا بھر میں موجود حریت پسند  آج جنت البقیع کے انہدام کے جانگداز المیہ پر اس دن کی یاد میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں مختلف پروگرامز اور احتجاجی جلسوں میں شریک ہو کر اپنا احتجاج درج کراتے ہیں کہ 8 شوال کی تاریخ اس دردناک واقعہ کی یاد کو تازہ کرتی ہے جب   90 سال زیادہ عرصہ ہونے آیا  وہابیت و تکفیریت نے اس تاریخی قبرستان کو منہدم کر کے آنے والے کل کے لئے اپنے خون خرابے کی سیاست کا اعلان کر دیا تھا۔

یوں تو ایک صدی ہونے کو آئی لیکن جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم کر دینے کا غم آج بھی تازہ ہے وہ قبرستان جس میں رسول رحمت کی بیٹی شہزادی کونین (بروایتے) اور ان کے ان فرزندوں کے مزارات مقدسہ تھے جنہوں نے بشریت کو علمی  ارتقاء و تکامل کا وہ وسیع و عظیم افق عطا کیا جس پر پہنچ کر آج انسان ان کے شاگردوں کے سامنے جھکا نظر آ رہا ہے کہ قال الباقر و قال الصادق کے موجزن علم کے ٹھاٹھے مارتے سمندر کے کچھ قطرے جابر ابن حیان و ہشام ابن الحکم نے بشریت کے حلقوم تشنہ میں ٹپکا دئیے تھے۔
کتنے عجیب خشک فکر اور کوڑھ مغز لوگ تھے جنہوں نے ان عظیم شخصیتوں کے مزارات مقدسہ کو زمیں بوس کر دیا جن سے کسی ایک مسلک و مذہب نے نہیں بلکہ بشریت نے فیض حاصل کیا اور آج تک کر رہی ہے۔
بقیع محض ایک قبرستان نہیں تھا جو ویران ہوا بلکہ ایک تاریخی دستاویز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرکے  کچھ لوگوں نے اپنے زوال کی سطریں رقم کی تھیں اور آج مذہبی و تکفیریت کے جنون میں بے گناہوں کو مار کر بہشت میں جانے کی آرزو اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

وہابیت و تکفیریت نے یہ چند مزارات مقدسہ کو مسمار نہیں کیا تھا، انسانیت و شرافت کے تاج کو اپنے پیروں تلے روند کر دنیا کو بتلایا تھا کہ پہچانو ہم کون ہیں؟ ہمارا تعلق کس فکر سے ہے؟
تکفیریت و وہابیت کا وجود ویسے ہی ہے جیسے شیطان کا، یہ ہر اس جگہ گرجتے ملیں گے جہاں شیطان گرجتا ہے یہ ہر اس  جگہ سے بھاگتے ملیں گے جہاں سے شیطان بھاگتا ہے۔ یہ جہاں توحید کی بات ہوگی جہاں سجدوں کی پاسداری کی بات ہوگی مشرکین سے برأت  کے اظہار کی بات ہوگی وہاں دُم دبائے بھاگتے نظر آئیں گے لیکن جہاں مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہوگی، معصوم بچوں پر بارود کی بارش کی بات ہوگی، نہتے لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بات ہوگی، انکے قدموں کے نشان نظر آئیں گے۔
یقین نہ آئے تو دیکھیں شیطان کہاں ہنس اور گرج رہا ہے؟ کہیں یمنیوں کے سروں پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر، کہیں انسانوں کی کھوپڑیوں سے فوٹبال کھیلتے ہوئے، کہیں عراق کی زمیں کو لہو لہو کر کے، کہیں شام کو ویرانے میں بدل کر، کہیں نائجیریا میں انصاف وعدالت کا گلا گھونٹ کر، کہیں سعودی عرب میں شیخ النمر کا سر قلم کر کے، کہیں پاکستان و افغانستان کی زمینوں کو خون سے سیراب کر کے، کہیں دھماکوں کے درمیان، کہیں شعلوں کے درمیان، کہیں لاش کے بکھرے ٹکڑوں کے درمیان تو کہیں کٹے ہوئے سروں کی نمائش کے درمیان، کہیں مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے تو کہیں امام بارگاہوں میں خوںچکا ہاتھوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے…  
اس کے قہقہہ بڑھتے ہیں، اس کی ٹولیاں آباد ہوتی ہیں، کہیں داعش کا ہاتھ تھامے کہیں النصرہ کا، کہیں القاعدہ تو کہیں بوکو حرام و الاحرار و جند اللہ کا۔ سب کی آوازیں ایک جیسی، سب کے رنگ ایک جیسے، سب کا انداز ایک جیسا، یہ عصبیت کے پتلے، یہ نفرتوں کی آگ میں دہکتے آتشیں گولے، یہ عدم تحمل و برداشت کے دھویں میں کالے کالے سیاہ سائے، شیطان کے کارندے، یہ ابلیس کے ہم جولی نہیں تو اور کون ہیں؟ جنہوں نے انسانیت پر وہ ظلم ڈھایا کہ بس… وہ ستم ڈھائے کہ الامآن …یہ جدھر نکلے آگ اور دہشت کا ماحول لے کر نکلے، جدھر پہنچے حیوانیت کا بھنگڑا کرتے پہنچے، درندگی کا ناچ ناچتے پہنچے۔
کسی زمانہ میں کہیں پڑھا تھا شاید کارل مارکس نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں لکھا تھا ’’زر اگر دنیا میں اپنے ایک گال پر خون کا دھبہ لے کر آتا ہے تو سرمایہ، سامراجیت کی شکل میں سر سے پیر تک، اپنے ہر ایک مسام سے خون ٹپکاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے۔‘‘  

بات صحیح ہے سامراجیت کی پوری تاریخ جارحیت، دوسرے ممالک پر قبضوں اور تسلط، لوٹ مار اور قتل عام سے عبارت ہے لیکن آج مطلع کارزار بدلا ہوا ہے۔ سامراج اپنے مہروں کو قتل و غارت گری کا ننگا ناچ نچوانے کے لئے جو کچھ ان کی ضرورت ہے اسے پورا بھی کر رہا ہے اور پھر گول میز کانفرنسوں میں دنیا میں امن و امان کی باتیں بھی۔

آج سرمایہ داری کا مکھوٹا ضرور دنیا کی سپر پاور نے پہنا ہوا ہے لیکن حقیقت میں سرمایہ دارانہ نظام جان بوجھ کر اسلامی نظام شاہنشاہی کی صورت، سعودی عرب کے حوالہ کیا ہوا ہے جس کی تاریخ ہی خون خرابے سے عبارت ہے وہ آج حرم امن الہی کا رکھوالا ہے جس نے اپنی بے بضاعتی سے مسجد النبی و بیت اللہ کو کشتوں سے پاٹ پاٹ دیا ہے۔جس نے قرآنی تعلیمات کا گلا گھوٹنے میں کبھی کوئی دقیقہ فروگزار نہ کیا، وہ قرآن ساری دنیا میں بانٹ کر وحی الہی کا دنیا میں نشر کرنے والا بن رہا ہے۔
اگر بقول مارکس کے پیسہ نوع بشر کے ایک گال پر خون کا دھبہ اور سرمایہ اس کے مساموں سے ٹپکتا لہو ہے تو آج کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جو نہ کر سکا وہ آج سعودی ریالوں کی جھنکار کر رہی ہے اور تکفیریت و وہابیت سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اپنے پورے تاریخی ظلم کے تجربات کے سایے میں انسانیت  کے سینہ پر بیٹھی اس کا گلا ریت رہی ہے اور اس کی پور پور سے خون ٹپک رہا ہے اور کوئی اس کے خلاف بولے تو کیا  بولے؟
حقوق انسانی و انسانیت کے نعروں کو بلند کرنے والی تنظیمیں اس کے خونی ناچ کے ساتھ ڈگڈگی بجا بجا کر محظوظ ہو رہی ہیں کہ کل تو امیر شام کا باپ اذان سے محمد رسول اللہ کو نہ نکال سکا لیکن آج ہماری ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ اور تکفیریت کے ننگے ناچ میں ضرور محمد رسول اللہ کا نام دہشت و ویرانی کا ترجماں بن جائے گا۔  جو نعرۂ اللہ اکبر، جو نعرۂ محمد رسول اللہ جانوں کی حفاظت کے لئے بلند ہوتا تھا وہ جب جانوں کو لینے کے لئے بلند ہوگا تو کوئی خوش ہو نہ ہو امیر شام کے باپ کی تمنا ضرور مچل مچل کر اُعلُ ھبل و اُعلُ ھبل کے نعرہ لگا رہی ہوگی۔

ایسے میں ضروری ہے کہ ہم دنیا کو پہچنوائیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور انسانیت کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟
ان کے سیاہ کارنامے تو دیکھیں جو عالمی استکبار و سامراج کی پشت پناہی میں اس تکفیری ٹولے نے انجام دئیے۔ بقیع تو محض ایک قبرستان تھا جس سے مسلمانوں کی قلبی وابستگی تھی، جو انسانی عظمتوں کے محافظ عظیم خاکی پیکر میں ڈھلے انوار الہیہ  کی پاکیزہ تربتوں کو اپنے دل میں سموئے تھا۔ انہوں نے محض اسے ہی مسمار نہیں کیا  بلکہ  اسکے ساتھ ساتھ اور بھی تاریخی و ثقافتی یادگاروں کو تباہ و برباد کیا۔ حتی اسلام کا مرکز جانے جانے والے شہر مدینہ تک کو نہیں بخشا۔

چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہابیوں نے مکۂ مکرمہ پر قبضے کے بعد مدینۂ منورہ کارخ کیا ، شہر کا محاصرہ کیا اور مدافعینِ شہر سے جنگ کے بعد اس پر قبضہ کر لیا۔ جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبور اور اسی طرح باقی قبروں جیسے قبر ابراہیم فرزند پیغمبر(ص)، ازواج آنحضرت کی قبور، قبر حضرت ام البنین مادر حضرت عباس(ع)، قبہ جناب عبداللہ رسول خدا(ص) کے والد گرامی، قبہ اسماعیل بن جعفر صادق علیہ السلام اور تمام اصحاب و تابعین کی تمام کی تمام قبور کو مسمار کر دیا اور اس فولادی ضریح کو بھی اکھاڑ دیا جسے اصفہان سے خاص طور پر بنا کر مدینہ لایا گیا تھا اور جسے نواسۂ رسول امام مجتبی علیہ السلام، فرزندان رسول امام زین العابدین علیہ السلام اور امام  محمد باقر و صادق علیہما السلام کی قبور مطہر پر نصب کیا گیا تھا۔

ان لوگوں نے نہ صرف اس ضریح کو وہاں سے اکھاڑا بلکہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس اور فاطمہ بنت اسد والدۂ گرامی امیر المومنین علیہ السلام کو بھی ویران کر دیا جو ائمہ اربعہ علیھم السلام کے ساتھ ایک ہی قبے میں تھیں۔[1]
اسی طرح مدینۂ منورہ میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے محل ولادت، شہدائے بدر کی قبور نیز حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا وہ مکان بھی انہوں نے مسمار کر دیا جسے آپ نے بنت نبی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لئیے مدینہ میں بنتعمیر کیا تھا ۔[2]
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہابیوں نے محض شیعہ آبادی کے علاقوں کو ہی تاراج کیا جب کہ حجاز اور شام میں ان کے کارناموں کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ اہل سنت آبادی کے علاقے بھی ان کی حیوانیت سے محفوظ نہ رہ سکے ۔
زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں:’’ولما ملکوا الطائف فی الذیقعدة سنة ١٢١٧، الف ومائتین وسبعة عشرقتلوا الکبیر والصغیر والمامور والامر ولم ینج الامن طال عمرہ ، وکانوایذبحون الصغیر علی صدرامہ ونھبوا الاموال وسبوا النساء‘‘۔[3]
١٢١٧ھ میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیا تو چھوٹے، بڑے، سردار و مزدور، سب کو قتل کر ڈالا، بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پا سکا، یہاں تک ماؤں کی آغوش میں ان کے شیرخوار بچوں کے سرتن سے جدا کر دیئے، لوگوں کا مال لوٹا اور عورتوں کو قیدی بنالیا …  

انکی داستان ظلم رقم کرنے کے لئے کتابیں درکار ہیں، کل انہوں نے مدینہ و حجاز و طائف  نہیں چھوڑا، آج یمن کو نابود کر دینے کے درپئے ہیں،  ایسے میں جنت البقیع کے انہدام کے سلسلہ سے ہونے والے پروگراموں میں انکی جارحیت و ظلم سے پردہ اٹھانا ہمارا دینی ہی نہیں انسانی فریضہ بھی ہے۔

وہ دن دور نہیں جب  عالمی سامراج و اسکتبار کے شانہ بشانہ ان ظالموں کو اپنے کئے دھرے کا حساب دینا ہوگا۔

مقلہ نگار: سید نجیب الحسن زیدی

حوالہ جات:
[1]  دوانی، مقدمہ۔فرقہ وہابی ،ص: ۵۶محسن امین ،کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥
[2] ۔قزوینی، وہابیت از منظر عقل و شرع ص ۱۱۹
[3]  زینی دحلان ،الدررالسنیة :ص،٤٥

ٹیگس