امریکی صدر کے دورہ ریاض کا ایک جائزہ
عرب دنیا کے مشہور صحافی خالد جیوسی نے اپنے ایک مقالے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے سعودی عرب کے سفر اور جدہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس کا جائزہ لیا ہے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: فلسطینی نژاد کے صحافی کا کہنا ہے کہ جدہ میں ہونے والے اجلاس میں مرکزی طور پر چین، روس اور ایران کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔
بن سلمان سنیچر کو جدہ کے سلام محل میں امریکی صدر کا استقبال کرتے ہوئے نظر آئے۔ بن سلمان یہاں پر عرب رہنماؤں کو بھی گلے لگاتے ہوئے دیکھے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ زیادہ تر ممالک اپنے پورے نمائندوں کے ساتھ پہنچے تھے جبکہ کویت کے نمائندوں کی سربراہی ولیعہد نے کیا۔ عمان کے سلطان بھی اس اجلاس سے دور رہے اور ان کی جگہ نائب وزیر نے شرکت کی۔
بن سلمان نے اجلاس کی سربراہی کی جبکہ ان کے والد اور سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبد العزیز بھی اجلاس سے غائب رہے۔
گروپ فوٹو میں سارے سربراہ موجود تھے اور ان کے پیچھے ان کے مملک کا پرچم نظر آیا۔ درمیان میں بن سلمان اور بائیڈن تھے۔
بن سلمان نے یمن میں جنگ بندی کو مستقل بنانے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے تیل کی پیداوار پہلے ہی 13 ملین بیرل کر دی ہے اور اب اس سے زیادہ پیداوار کی توانائی اس کے پاس نہیں ہے۔
انہوں نے ایران کو تعاون کی دعوت دی اور کہا کہ دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرے، حالانکہ سعودی عرب علاقے کے ممالک پر جنگیں مسلط کر رہا ہے۔
جو بائیڈن نے بھی اپنا پرانا موقف اختیار کیا کہ ایران علاقے میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کی کوشش کرائی کہ امریکا اپنے اتحادیوں کا ساتھ دیتا رہے گا۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ اتحادیوں کو بائیڈن کی یقین دہانی پر کتنا بھروسہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم علاقے میں روس، چین اور ایران کے لئے جگہ خالی نہیں چھوڑیں گے۔
اجلاس میں یہ بات صاف نطر آئی کہ ممالک میں دوسرے کے حوالے سے اعتماد نہیں ہے۔ بن سلمان نے فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کو دعوت ہی نہیں دی تھی۔
قطر، سعودی عرب کی شدید ناکہ بندی برداشت کر چکا ہے۔ عراق اور شام میں سعودی عرب کے تباہ کن پروگرام سے سبھی آگاہ ہیں۔ اسی لئے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ سارے رہنما جمع تو ہوگئے لیکن یہ خوف قاغم ہے کہ کون کسے دھوکہ دے گا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے ایران پر امریکا کی پابندیوں کے بارے میں اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ جس میں خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہندوستانی کے حکام ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے معاملے میں جو غلطی کر چکے ہیں اسے روس کے مسئلے میں ہرگز نہیں دہرنا چاہتے۔ یہی سبب ہے کہ چین کی طرح ہندوستان بھی مسلسل روس سے تیل خرید رہا ہے۔