کابل پرامریکی ڈرون حملہ دوحہ سمجھوتے کی خلاف ورزی
القاعدہ کے سرغنہ کے قتل کے بہانے کابل پر حالیہ امریکی ڈرون حملہ ایسی حالت میں انجام پایا ہے کہ جب امریکہ نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے انخلا کے بعد اس ملک میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ اتوار کو کابل پر ہونے والا امریکی ڈرون حملہ اس ملک کے فضائی حدود کی خلاف ورزی شمار ہوا اور بعض مبصرین نے اس حملے کو دوحہ سمجھوتے کو نشانہ بنائے جانے سے تعبیر کیا ہے۔
افغانستان کی طالبان انتظامیہ نے پیر یکم اگست کو کابل پر اتوار کے امریکی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے امریکہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور اسے افغانستان کے قومی اقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس سلسلے میں طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ کابل کے شیرپور علاقے میں اکتیس جولائی بروز اتوار ایک رہائشی مکان پر ہونے والا امریکی حملہ دوحہ سمجھوتے اور بین الاقوامی قوانین و اصول کے منافی ہے۔
اگرچہ افغانستان کی طالبان انتظامیہ نے اب تک اس حملے میں القاعدہ کے سرغنہ کی ہلاکت کے بارے میں اپنے کسی موقف کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ایک بار پھر افغانستان کے قومی اقتدار اعلی اور اس ملک کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کی یہ منھ زوری تسلط پسندی اور دنیا کے آزاد ملکوں کے قومی اقتدار اعلی کو جارحیت کو نشانہ بنائے جانے کے مترادف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بین الاقوامی قوانین و اصول اور اقوام متحدہ کے منشور کی مسلسل دھجیاں اڑا رہا ہے اور اب تک دنیا کے مختلف ملکوں کو نشانہ بناتا آیا ہے اور اس نے مختلف ملکوں کے نظام بھی ختم کئے ہیں۔
القاعدہ سرغنہ کے قتل کے بہانے کابل پر حالیہ ڈرون حملہ ایسی حالت میں انجام پایا ہے کہ امریکہ نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے انخلا کے بعد اس ملک میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ اتوار کو کابل پر ہونے والا امریکی ڈرون حملہ اس ملک کے فضائی حدود کی خلاف ورزی شمار ہوا اور بعض مبصرین نے اس حملے کو دوحہ سمجھوتے کو نشانہ بنائے جانے سے تعبیر کیا ہے۔
امریکہ نے ایسی حالت میں کابل کو نشانہ بنایا ہے کہ اس نے بارہا طالبان انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال کئے جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے جبکہ طالبان بھی اپنے اس وعدے پر ہمیشہ زور دیتے آئے ہیں تاہم یہ امریکہ ہے جو اپنے کسی وعدے کی پابندی نہیں کرتا اور اپنی من مانی کرتے ہوئے مختلف بہانوں سے کسی بھی ملک کو جارحیت کا نشانہ بنا بیٹھتا ہے۔
امریکہ نے دعوی کیا ہے کہ اس حملے میں القاعدہ سرغنہ ایمن الظواہری ہلاک ہوا ہے جبکہ اس دعوے کی صداقت میں اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے بالکل ویسے ہی جیسے القاعدہ سرغنہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا اور دعوی کر دیا گیا کہ اس کی لاش کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔
چنانچہ کابل پر امریکہ کے اس ڈرون حملے کو ایک آزاد ملک پر جارحیت اور کئے جانے والے دعوے کو طالبان کا ردعمل روکنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ڈیموکریٹس انتخابات کے موقع پر اپنی تشہیراتی مہم میں اس حملے کو ایک پروپیگنڈہ مہم کا ذریعہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ظاہر کرسکیں کہ صورت حال پر اس کا پورا کنٹرول ہے۔ مگر کابل پر ہونے والا امریکی ڈرون حملہ اس ملک کے فضائی حدود کی خلاف ورزی شمار ہوا اور بعض مبصرین نے اس حملے کو دوحہ سمجھوتے کو نشانہ بنائے جانے سے تعبیر کیا ہے۔