Aug ۱۳, ۲۰۲۲ ۱۵:۰۸ Asia/Tehran
  • الظواہری کے مارے جانے  کے بعد تو ہماری حکومت کو تسلیم کیا جائے: طالبان ترجمان

طالبان کی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ، القاعدہ دہشت گرد گروہ کے سرغنے کی ہلاکت کے بعد، طالبان کی حکومت کو تسلیم کئے جانے کے عمل میں تیزی آنی چاہئے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق، طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ایمن الظواہری کے قتل کے بعد طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کئے جانے کی رفتار تیز ہو جانی چاہئے تا کہ طالبان ایک ذمہ دار حکومت کی حیثیت سے دنیا کے سامنے جوابدہ ہوسکے۔

انہوں نے اس دعوے کا اعادہ کیا کہ افغانستان کی موجودہ انتظامیہ کے کسی بھی رکن کو القاعدہ کے سرغنے ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے اس کی وجہ انٹیلی جنس کے میدان میں ناتجربہ کاری قرار دیا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے امریکیوں کے ہاتھوں ایمن الظواہری کے قتل کی تحقیقات  کے لئے ایک ٹیم تشکیل دینے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے دنیا کو اب کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے اور اگر دوسرے ممالک کو کسی بھی گروہ کی سرگرمی کا علم ہو، تو معلومات طالبان کو فراہم کی جائیں تا کہ ضروری قدم اٹھایا جا سکے۔

یاد رہے کہ امریکہ نے اکتیس جولائی کو کابل میں مبینہ ڈرون حملے مین ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔

ادھر افغانستان کے سینٹرل بینک نے امریکہ میں کابل کے منجمد اثاثوں کو ریلیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ افغانستان کے مرکزی بینک کی منیجنگ کمیٹی کے رکن شاہ محرابی نے امریکی پابندیوں کو افغانستان کے موجودہ معاشی بحران کی اصل وجہ قرار دیا۔ انہوں نے امریکہ کو افغان عوام کو درپیش موجودہ بحران کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ پابندیاں ختم کرکے افغان عوام کی مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے۔ 

طالبان کی حکومت کی وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے بھی کابل کو درپیش اقتصادی بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاجر اور صنعت کاروں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ان پابندیوں سے پریشان ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بینکاری کے شعبے میں رکاوٹوں نے بین الاقوامی اور مالی لین دین کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ 

دریں اثنا اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر افغانستان کا معاشی بحران جاری رہا تو اس ملک میں شرح افلاس رواں سال کے آخر تک ستانوے فیصد تک پہنچ جائے گا۔

ہیومن رائٹس واچ نے بھی افغان شہریوں کے انسانی، اقتصادی اور غذائی بحران کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بیس سالہ تسلط کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ 

اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت نوے فیصد افغان شہری غربت میں ڈوب چکے ہیں اور اس ملک کی آدھی آبادی کو شدید بھوک و افلاس کا سامنا ہے۔ 

یاد رہے کہ امریکہ نے ایک جانب اگست دو ہزار اکیس میں طالبان کی افواج کے داخلے کے ساتھ ساتھ افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کو مکمل کیا تو دوسری طرف مختلف بہانے پیش کرکے افغانستان کے دس ارب ڈالر کے غیرملکی ذخیروں پر قبضہ جما لیا جسے افغان عوام کی موجودہ ابتر صورتحال کی اصل وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ٹیگس