عراقی اسپیکر کا استعفی، سیاسی محرکات
عراقی کی پارلیمنٹ مجلس النواب کے اسپیکر محمد الحلبوسی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے اور اس معاملے پر بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں ارکان سےووٹنگ کی اپیل کی ہے۔
ہمارے نمائندے کے مطابق، محمد الحلبوسی نے اپنے استعفے کا اعلان عراق کے امور میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندے جینن پلاسخارت کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کیا ہے۔
حلبوسی کے استعفے کے اعلان نے، پیر کے روز اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندے کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے موضوع اور ایجنڈے کے بارے میں کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔
عراق میں گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کے بعدمحمدالحلبوسی کو ایک بار پھر پارلیمنٹ کا اسبپیکر منتخب کیا گیا تھا لیکن الصدرتحریک کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کے بعد ایوان کا توازن بگڑ گیا تھا۔
عراقی آئین کے تحت کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے استعفے کی صورت میں اس کی نشست، الیکشن میں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو دےدی جاتی ہے۔
بادی النظر میں محمد الحلبوسی اپنے استعفے کے ذریعے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ نئے ارکان کے آجانے کے بعد جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شیعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی سے ہے، اپنے سیاسی اعتبار اور وزن کو پرکھنا چاہتے ہیں
دوسرا یہ کہ وہ شیعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے سیاسی رویّے کو جانچناچاہتے ہیں تاکہ وزیراعظم کے انتخاب کے حوالے سے اپنی جماعت کے راستے کا تعین کرسکیں۔
کیونکہ شیعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی بدستور محمد شیاع السودانی کو وزیراعظم نامزد کرنے پر مصر ہے۔ الصدر تحریک کے سربراہ کی جانب سے الفتح الائنس ، کے سربراہ ہادی العامری، اسپیکر محمد الحلبوسی اور عراقی کردستان ریجن کے سربراہ نیچروان بارزانی کے ساتھ مشترکہ اجلاس میں شرکت کا اعلان بھی اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ محمدشیاح السودانی ہی عراق کے نئے وزیراعظم ہوں گے۔
بنابرایں یہ کہا جاسکتا ہے کہ محمد الحلبوسی اسپیکر کے عہدے کے حوالے سے شیعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے رویہ کو مد نظر رکھتے ہوئے محمد شیاع السودانی کے انتخاب کے بارے میں اپنی پارٹی کے موقف کا تعین کریں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ محمد الحلبوسی نے اپنے عہدے سے استعفی ایسے وقت میں دیا ہے جب انہیں پارلیمنٹ سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ ملنے اور ایک بار پھر اسپیکر منتخب ہونے کا یقین حاصل ہوگیا ہے۔