Oct ۰۲, ۲۰۲۵ ۱۳:۳۸ Asia/Tehran

اسرائیلی فوج نے غزہ کی حمایت میں یورپ کے سب سے بڑے بحری بیڑے کو ساحل سے 75 میل دور ہی روک لیا، جس کی عالمی سطح پر مذمت اور یورپ میں وسیع پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

سحرنیوز/عالم اسلام: غاصب صیہونی حکومت  کی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں 'عالمی صمود کارواں' کے کئی جہازوں کو روک لیا ہے جس پر سخت بین الاقوامی رد عمل اور یورپ میں عوامی احتجاج کی لہر اٹھی ہے ۔ غاصب صیہونی فوجیوں کی جانب سے صمود کارواں کے  بحری  جہازوں کو روکنے کا یہ عمل گزشتہ رات سے جاری ہے اور آج صبح  تک جاری رہا تاہم خبریں ہيں کہ کچھ بحری جہاز غزہ سے بے حد قریب پہنچ گئے ہيں۔

 دنیا بھر کے سماجی کارکنوں کی نمائندگی میں یہ  بحری بیڑا، غزہ کا محاصرہ توڑنے اور وہاں کے  لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کے لیے روانہ کیا گیا  ہے ۔ اس بحری کارواں  میں 44 ممالک کی 50 سے زیادہ کشتیاں اور 500 سماجی کارکن، سیاست داں اور رضاکار شامل  ہیں  جن میں گریٹا تھنبرگ، منڈیلا منڈیلا جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔

رپورٹس کے مطابق، پہلی اکتوبر کی شام جب کئی اہم جہاز غزہ سے 75 میل کے فاصلے پر کھلے پانی میں تھے تو صیہونی فوجیوں کی جانب سے  ان بحری جہازوں کو روکنے کا عمل شروع ہوا۔ سماجی کارکنوں  کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جنگی جہازوں نے پہچان چھپا کر بیڑے کے قریب آئے اور کارواں کے بحری  جہازوں کے مواصلاتی نظام میں خلل اندازی کی  جبکہ صیہونی فوج کی  خصوصی فورسز نے  خاص ہتھیاروں سے بحری جہازوں پر دھاوا بول دیا جس کے دروان تھنبرگ سمیت  کم از کم 12 سماجی کارکنوں کو گرفتار کر کے اشدود بندرگاہ لے جایا گیا ہے ۔ کارواں کے  منتظمین نے اس عمل کو 'اجتماعی اغوا' اور 'بحری قزاقی' قرار دیا ہے۔

اسرائیل کا دعوی ہے حماس  اس  بیڑے کی حمایت کر رہا ہے اور غزہ میں " ممنوعہ مواد"  کے داخلے کو روکنے کے لیے اس کارواں کو روکنا ضروری تھا۔

 

دوسری طرف، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل کو بحری قوانین اور غزہ میں امداد کی ترسیل کے بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

یہ واقعہ اس سال اسی طرح کے دیگر کاروانوں کو روکنے کی اسرائیل کی تیسری کارروائی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے صیہونی حکومت کی اس حرکت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خصوصی رپورٹر فرانسسکا البانیز نے اس بحری  بیڑے کو روکنے کے صیہونی عمل کو 'بحری قوانین کے کنونشن کی خلاف ورزی اور غزہ میں نسلی کشی کے عمل کا حصہ' قرار دیا۔

یورپ میں  بھی غاصب صیہونی حکومت کے اس اقدام پر سیاسی اور عوامی رد عمل وسیع  رہا  ہے ۔

 

اسپین نے اسرائیلی  ناظم الامور کو طلب کیا اور اس عمل کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اٹلی میں ٹریڈ یونینوں نے عام ہڑتال کا اعلان کیا اور مزدوروں نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد روکنے کا مطالبہ کیا ۔ فرانس میں  حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے وسیع پیمانے پر مظاہرے کیے اور برطانیہ میں مختلف تنظمیوں نے برطانوی شہریوں کی گرفتاری کے خلاف خاموشی اختیار کرنے پر حکومت برطانیہ کی مذمت کی ہے۔

 در ایں اثنا برسلز، برلن، روم، بارسلونا، پیرس اور استنبول جیسے شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ۔ مظاہرین نے فلسطینی پرچم لہراتے اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے  ، صمود کارواں کے گرفتار کارکنوں  کی فوری رہائی اور غزہ کے محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ترکی میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے بھی بیڑے کو روکنے کے خلاف وسیع مظاہرہ ہوا۔

 

غزہ کی امداد کے لئے صمود کارواں کے کارکنوں کی گرفتاری کی تصاویر، سوشل میڈیا پر لاکھوںبار شیئر کی گئیں اور #SumudFlotilla اور #FreeGaza کے ہیش ٹیگ عالمی ٹرینڈ بن گئے۔

 

صمود کارواں کا اعلان: پیچھے ہٹے بغیر  ہم اپنا سفر جاری رکھیں گے

"صمود" بیڑے نے اپنے دوسرے بیان  میں کہا ہے کہ متعدد  بحری جہازوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور مسافروں اور عملے کی صورت حال  جاننے کی کوششیں جاری ہیں۔ بیڑے کے ذمہ داروں کے مطابق، بین الاقوامی پانیوں میں جہازوں پر حملہ کرنا اور انہیں روکنا غیر قانونی ہے اور اس طرح سے  نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گيا ہے۔

"الصمود" بیڑے نے دنیا کی حکومتوں سے اپنے رضاکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے اور تمام گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ بیڑے نے زور دے کر کہا ہے کہ وہ غزہ کے ساحل سے تقریباً 70 میل کے فاصلے پر ہے اور وہ پیچھے ہٹے بغیر اپنا سفر جاری رکھے گا۔

بیڑے کی انتظامیہ کے مطابق، صہیونی حکومت کی بحریہ نے جان بوجھ کر بیڑے کے ایک جہاز  کو ٹکر ماری تاکہ اسے نقصان پہنچ سکے۔  یہ بھی بتایا گيا  ہے کہ صیہونی فوجیوں  نے ہائی پریشر واٹر کینن استعمال کرتے ہوئے متعدد جہازوں کو نشانہ بنایا۔

 

 

 

 

 

 

 

ٹیگس