ترکی کے صدر کی شام سے متعلق اپنے سابقہ موقف سے پسپائی
Sep ۲۵, ۲۰۱۵ ۱۱:۳۴ Asia/Tehran
ترکی کے صدر نے دمشق کے بارے میں اپنے سابقہ موقف سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے صدر بشار اسد اس ملک میں اقتدار کی منتقلی حصہ بن سکتے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے جمعرات کے دن استنبول میں نماز عید الضحی کی ادائیگی کے بعد کہا کہ شام میں اقتدار کی منتقلی کا عمل بشار اسد کی شرکت کے ساتھ یا اس کے بغیر جاری رہ سکتا ہے۔ شام کے بارے میں ترکی کے صدر کے موقف میں ایسی حالت میں تبدیلی آئی ہے کہ جب بشار اسد کی حکومت کی فوجی حمایت پر مبنی روس کے اعلان آمادگی کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے بھی اسی سے ملتا جلتا موقف اختیار کیا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے شام کے بحران کا واحد حل دہشت گردی سے مقابلے میں دمشق کی حکومت کی حمایت کو قرار دیا ہے۔
ولادیمیر پوتن نے ایک ہفتہ قبل امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کے موقع پر کہا تھا کہ بشار اسد کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق صرف شام کے عوام کو حاصل ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی کہا ہے کہ اگرچہ شام کے صدر بشار اسد کو اقتدار سے الگ ہونا ہے لیکن ان کی برطرفی کے وقت کا تعین مذاکرات کے ذریعے کیا جانا چاہئے۔
اس سے قبل برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے بھی اس سے ملتے جلتے بیانات دیئے تھے۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھی شام اور بشار اسد کے بارے میں لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی صورتحال سے متعلق مذاکرات بشار اسد کی شرکت کے ساتھ ہونے چاہئیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فابیوس نے بھی کہا ہے کہ بشار اسد کے بغیر شام کے بحران کا سفارتی حل ممکن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ شام میں تکفیری دہشت گرد گروہوں نے سنہ دو ہزار گیارہ سے بدامنی پھیلا رکھی ہے۔
ان کو یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
ان ممالک نے دہشت گردوں کی وسیع پیمانے پر مالی اور اسلحہ جاتی مدد کی ہے۔ شام میں بدامنی شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریبا ڈھائی لاکھ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔