افغانستان میں امن و استحکام وسیع البنیاد حکومت کا متقاضی ہے: پڑوسی ممالک افغانستان
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے افغانستان کے چھے پڑوسی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ افغانستان کے عوام کی خواہشات اور منشا کے مطابق ہونا چاہیے۔
جمعرات کی شب جاری ہونے والے مشترکہ بیان کے مطابق، پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے افغانستان کے چھے پڑوسی ملکوں کے آن لائن اجلاس میں ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے حصہ لیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں شریک ملکوں کے وزرائے خارجہ نے مثبت اور تعمیری ماحول میں بات چیت کی اور اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اس ملک کے عوام کو کرنا ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں ہی امن قائم ہوسکتا ہے۔
بیان میں زور دیا گیا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ اس بحران کو فوجی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا ۔ بیان میں افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے جس میں تمام اقوام کو نمائندگی حاصل ہو۔
افغانستان کے چھے پڑوسی ملکوں کے اجلاس کے اختتامی بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سماجی اور اقتصادی ترقی کے میدان میں افغانستان کی حمایت کرے نیز اس ملک کےعوام کے لیے انسان دوستانہ امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
بیان میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور تعمیر نو کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور مشکل کی اس گھڑی میں افغانستان کے عوام کو تنہا نہ چھوڑیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے چھے ہمسایہ ملکوں کے اجلاس میں حاصل ہونے والا اتفاق رائے، خاص طور سے ایک آزاد اور وسیع البنیاد سیاسی نظام کے قیام کا مطالبہ ، انتہائی اہم ہے جو افغانستان کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
افغانستان کے چھے ہمسایہ ملکوں کے مشترکہ بیان میں دو باتیں قابل غور ہیں جن میں کچھ مطالبات اور توقعات ہیں جو طالبان کو پورا کرنا چاہئے اور ان میں سب سے پہلے افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا ہے اور دوسرے اس ملک میں پائیدار امن کے قیام کا معاملہ ہے۔
بنا برایں طالبان اور پاکستان کی جانب سے افغان عوام کے حقوق کو یقینی بنائے جانے کی سمت آگے بڑھنا، خاص طور پر افغان عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق ایک آزاد اور خودمختار حکومت کے قیام کو عملی شکل دینا، بحران افغانستان کے حل کا راستہ ہموار کرسکتا ہے اور اس حوالے سے اہم اور بنیادی قدم شمار ہوتا ہے۔ بصورت دیگر، ایسے اجلاسوں کے انعقاد اور مشترکہ بیانات سے، افغانستان میں طالبان کی گانٹھ کو کھولا جانا ممکن نہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی افغانستان کے امور میں پاکستان کی مداخلت کی کوئی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے جس کے خلاف افغان عوام پہلے سے ہی سراپا احتجاج ہیں۔