حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
پاکستان کی عسکری قیادت نے گزشتہ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے کیے گئے وعدے کے مطابق تسلیم کیا کہ جاری مذاکرات میں ٹی ٹی پی کو کوئی ماورائے آئین رعایت نہیں دی جائے گی اور اس گروپ کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے تابع ہو گا۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ایک اجلاس میں اعلیٰ اختیاراتی پارلیمانی کمیٹی کے 27 ارکان نے شرکت کی جس میں وزیر اعظم اور سینیٹ میں اپوزیشن کے اور پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں برائے دفاع کے ارکان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل جنرل ندیم انجم اور کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے، جو مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔
مذاکرات کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔ عسکری قیادت نے گزشتہ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے کیے گئے وعدے کے مطابق تسلیم کیا کہ جاری مذاکرات میں ٹی ٹی پی کو کوئی ماورائے آئین رعایت نہیں دی جائے گی اور اس گروپ کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے تابع ہو گا۔
بات چیت میں ٹی ٹی پی نے قبائلی اضلاع سے سیکیورٹی فورسز کے انخلا، ان علاقوں کے 2018 کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو ختم کرنے، اپنے جنگجوؤں کی رہائی اور پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارلیمانی رہنماؤں کو یہ تاثر دیا گیا کہ ٹی ٹی پی نے ان تینوں معاملات پر اپنا مؤقف نرم کر لیا ہے۔
معاہدہ طے پانے کے بعد ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرنے کا منصوبہ ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو بتایا گیا کہ معاہدے کی صورت میں ٹی ٹی پی کے 30 ہزار عسکریت پسندوں اور ان کے خاندان کے افراد کی پاکستان واپسی متوقع ہے۔
قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات گزشتہ سال اکتوبر میں شروع ہوئے تھے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا تھا جسے اپریل میں خفیہ طور پر بحال کیا گیا تھا جب ٹی ٹی پی نے سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے بعد بالآخر جنگ بندی کی گئی، اس وقت کہ جب بات چیت جاری ہے تین ماہ سے جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان ملک میں بڑے دہشتگردانہ واقعات میں ملوث رہی ہے جن میں 2014 میں پیشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے قتل عام کا دلخراش واقعہ بھی شامل ہے جہاں مجموعا ایک سو سینتالیس افراد کو نہایت سفاکیت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ مقتولین کی اکثریت معصوم بچوں کی تھی۔