Oct ۲۳, ۲۰۲۱ ۰۸:۴۳ Asia/Tehran

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں خلا سے دریائے نیل کا منظر پیش کیا گیا ہے۔

ناسا کے خلاباز شین کیمبرو(Shane Kimbrough) نے خلیج فارس کا نیا ویڈیو اپنے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ہے۔ 

دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے جو براعظم افریقا میں واقع ہے۔ یہ دو دریاؤں نیل ابیض اور نیل ازرق سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ آخر الذکر ہی دریائے نیل کے بیشتر پانی اور زرخیز زمینوں کا سبب ہے لیکن طویل اول الذکر دریا ہے۔ نیل ابیض وسطی افریقا میں عظیم جھیلوں کے علاقے میں جنوبی روانڈا سے نکلتا ہے اور شمال کی جانب تنزانیہ، یوگینڈا اور جنوبی سوڈان سے گذرتا ہے جبکہ نیل ازرق ایتھوپیا میں جھیل ٹانا سے شروع ہوتا ہوا جنوب مشرق کی سمت سفر کرتے ہوئے سوڈان سے گذرتا ہے۔ یہ دونوں دریا سوڈان کے دار الحکومت خرطوم کے قریب آپس میں ملتے ہیں۔

دریائے نیل کا شمالی حصہ سوڈان سے مصر تک مکمل طور پر صحرا سے گذرتا ہے۔ جنوبی مصر میں اس دریا پر مشہور اسوان بند تعمیر کیا گیا ہے جو 1971 میں مکمل ہوا۔ اس بند کے باعث ایک عظیم جھیل تشکیل پائی جو جھیل ناصر کہلاتی ہے۔ یہ جھیل مصر اور سوڈان کی سرحد پر واقع ہے تاہم 83 فیصد جھیل مصر میں واقع ہے جبکہ 17 فیصد حصہ سوڈان میں ہے جہاں اسے جھیل نوبیا کہا جاتا ہے۔ جھیل ناصر 550 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 35 کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس کا کل رقبہ 5،250 مربع کلومیٹر ہے جبکہ پانی کے ذخیرے کی گنجائش 157 مکعب میٹر ہے۔ مصر کی آبادی کی اکثریت اور تمام شہر اسی دریا کے کنارے آباد ہیں۔

مصر کا موجودہ دار الحکومت قاہرہ دریائے نیل کے کنارے اور اس کے جزائر پر عین اس مقام پر واقع ہے جہاں دریا صحرائی علاقے سے نکل کر دو شاخوں میں تقسیم ہوکر ڈیلٹائی خطے میں داخل ہوتا ہے ۔

دریائے نیل 6،695 کلومیٹر (4،160 میل) کا سفر طے کرنے کے بعد اس ڈیلٹائی علاقے سے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں گرتا ہے۔

قدیم مصر کے تمام آثار قدیمہ بھی دریائے نیل کے کناروں کے ساتھ ملتے ہیں کیونکہ 4 ہزار سال قبل مسیح میں صحرائے اعظم کی وسعت گیری اور خشک سالی کے باعث مقامی باشندے دریائے نیل کی جانب ہجرت کر گئے جو عظیم مصری تہذیب کا پیش خیمہ بنی۔

ٹیگس