کیا ڈائناسور بھی چھینکتے اور کھانستے تھے؟
ایک دلچسپ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آج سے کروڑوں سال پہلے کے دیوقامت ڈائناسور بھی برڈ فلو جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو کر چھینکتے اور کھانستے تھے؛ اور شاید انہیں بخار بھی ہوجاتا تھا۔
یہ انکشاف امریکی ریاست مونٹانا میں ’میوزیم آف راکیز‘ کے ماہرین نے تقریباً 15 کروڑ سال قدیم ایک ڈائناسور کے رکازات (فوسلز) پر کئی سالہ تحقیق کے بعد کیا ہے۔
’ڈولی‘ یا ’ایم او آر 7029‘ کہلانے والے یہ رکازات 1990 کی دہائی میں مونٹانا کے ایک علاقے ’مالٹا‘ سے دریافت ہوئے تھے۔
یہ رکازات لمبی گردن، بھاری جسم اور چار پیروں پر چلنے والے ’ساروپوڈ‘ ڈائناسور کے تھے جو تقریباً 15 کروڑ سال قبل وہاں رہا کرتا تھا۔
یہ رکازات پوری احتیاط سے سنبھال کر میوزیم کے تہہ خانے میں رکھ لیے گئے اور ان پر باقاعدہ تحقیق کئی سال بعد، لگ بھگ 2005 میں شروع کی گئی۔
یہ تحقیق وقفے وقفے سے 2021 تک جاری رہی۔ اس دوران ’ڈولی ڈائناسور‘ کی دیگر باقیات بھی دریافت ہوئیں جبکہ اس کے مختلف حصوں کا محتاط مطالعہ بھی کیا جاتا رہا۔
سی ٹی اسکین اور دوسری جدید تکنیکوں سے جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ دیگر ساروپوڈ ڈائناسوروں کے مقابلے میں اس کی گردن اور گلے والا حصہ بہت مختلف تھا۔
’ڈولی‘ میں سانس کی نالی سے منسلک، ریڑھ کی ہڈی کے مہرے اپنی اصل جگہ سے کچھ کھسکے ہوئے تھے جبکہ فوسل میں اس کی پسلیوں کی بناوٹ بھی کچھ عجیب محسوس ہورہی تھی۔
واضح رہے کہ ڈائناسور کا نظامِ تنفس (ریسپائریٹری سسٹم) یعنی سانس لینے کا نظام، موجودہ زمانے کے پرندوں جیسا ہوا کرتا تھا۔
یہی مماثلت استعمال کرتے ہوئے جب ’ڈولی‘ کی ٹانگوں اور دوسرے جسمانی حصوں کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ اس کے گلے اور پسلیوں کی کیفیت ویسی ہی تھی جیسی ’برڈ فلو‘ میں مبتلا جدید پرندوں کی ہوتی ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ زکام کی وجہ سے ’ڈولی‘ کو چھینکوں اور کھانسی کا اتنا شدید دورہ پڑا کہ جس سے اس کی گردن کے مہرے اور پسلیوں والا حصہ تک اپنی جگہ سے ہل کر رہ گئی۔
ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں اس حوالے سے امریکی اور کینیڈین سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ مرتے وقت اس ڈائناسور کی عمر 15 سے 20 سال کے درمیان رہی ہوگی۔
البتہ، اس کے رکازات میں ایسی کوئی علامت نہیں جو اس پر کسی دوسرے جانور کے حملے یا کوئی بھاری چٹان وغیرہ گرنے کی طرف اشارہ کرتی ہو۔
اس رکاز کے تمام شواہد ’’اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ پرامن حالت میں، شدید بیماری کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا،‘‘ ڈاکٹر کیری ووڈرف نے کہا، جو اس ریسرچ پیپر کے مرکزی مصنف اور میوزیوم آف دی راکیز کے سینئر سائنسدان ہیں۔
’’ہم خاصے اعتماد سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈائناسور کے زمانے میں بھی سانس کی بیماریوں کا وجود تھا؛ لیکن اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بیماریاں جرثوموں اور پھپھوندیوں سے ہوتی تھیں یا ان کی وجہ بھی موجودہ برڈ فلو وائرس جیسے وائرس ہی تھے،‘‘ ڈاکٹر ووڈروف نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے واضح کیا۔
بشکریہ
ایکسپریس نیوز