Jul ۲۸, ۲۰۲۳ ۱۶:۱۰ Asia/Tehran
  • کربلا ہمیں کیا سکھاتی ہے؟ (۲)

مکتب حسینی، عشق محبت سے لبریز ایک ایسا سمندر ہے جس میں انسان جتنا زیادہ غوطہ ور ہو، اتنا ہی وہ عزت، شرف اور سربلندی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اس میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور جس قدر وہ بیدار ہوتا ہے اتنا ہی ظلم و استبداد اور عالمی سامراج کے ایوانوں میں لرزہ پیدا ہوتا ہے۔

سحر نیوز/مناسبت: تحریک کربلا کے آغاز سے لے کر معرکۂ کربلا سجنے اور پھر اُس کے بعد کاروان حسینی کے واپس مدینے آنے تک قدم قدم پر بشریت کے لئے بے شمار انسان ساز اسباق بکھرے ہوئے ہیں۔ محسنِ انسانیت، امامِ حریت حضرت امام حسین علیہ السلام کا ہر قول و فعل انسانیت کے تقاضوں سے ہماہنگ اسلام و قرآن کی آفاقی تعلیمات کا غماز ہے۔

یہ بھی دیکھیئے: کربلا ہمیں کیا سکھاتی ہے؟ (۱)

ہم اس نوشتے میں مختصراً کربلا سے ملنے والے چند ایک اسباق پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:

۶۔ ایثار و فداکاری

قیام حسینی میں ایثار و فداکاری اور دوسروں کو خود پر ترجیح دینے کا عنصر بہت نمایاں طور پر موجود ہے اور کتاب کربلا میں خود سید الشہدا امام حسین علیہ السلام مجسم ایثار تھے کہ جنہوں نے اسلام، قرآن، انسانیت، اب و جد کی سیرت اور مختصراً بشر کو خیر و سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے اپنی پوری ہستی لٹا دی۔ مقاتل نے واضح طور پر نقل کیا ہے کہ اصحاب کی جانثاری کے بعد جب عزیزوں کی  باری آئی تو آپ نے سب سے پہلے اپنے فرزند دلبند علی اکبر علیہ السلام کو حق و حقیقت کی پاسبانی کے لئے میدانِ جہاد کی جانب روانہ کیا۔

کتاب کربلا میں ایثار کی دوسری بڑی مثال سقا کہلانے والے علمدار کربلا حضرت ابو الفضل العباس نے اُس وقت پیش کی جب وہ تین دن کی بھوک اور پیاس سہنے کے بعد اپنے امام کی جانب سے پانی کا بندوبست کرنے پر مامور ہوئے اور آپ نہر پر تعینات لشکر کو پچھاڑ کر جس وقت پانی تک پہنچ گئے تو آپ نے سید الشہدا اور اہل حرم کی پیاس کی خاطر پانی سے اپنے لب تر نہ کئے اور یوں ہی شدید پیاس کے عالم میں خیام حسینی کی جانب روانہ ہو گئے۔

دیگر اصحاب و انصارِ حسینی نے بھی اپنے جذبۂ ایثار کی وہ مثال پیش کی کہ جسکی رہتی دنیا تک مثال نہ مل پائے گی۔ میدان کارزار میں جانے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش میدان کربلا میں بار بار نظر آئی۔

۷۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کی بنیاد جس رکن پر تھی وہ تھا امر بالمعروف وار نہی عن المنکر۔ آپؑ نے مدینے سے خارج ہوتے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام لکھی اپنی وصیت میں تحریر فرمایا: میں مقام و منصب کے حصول یا پھر فتنہ و فساد بپا کرنے کے لئے نہیں نکلا ہوں، بلکہ میرا مقصد اپنے جد کی امت کی اصلاح ہے، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہوں۔

ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں: خداوندا میں خیر و نیکی کا مشتاق اور منکرات سے منتفر ہوں۔

یعنی مکتب کربلا کا رکن رکین بشریت کی اصلاح اور خیر و سعادت کی جانب اسکی رہنمائی کے جذبے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یعنی وہی انسانی پہلو کہ جس نے آج ساری انسانیت کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور دنیا والے رنگ، نسل، قوم، قبیلہ، ملک، مذہب اور زبان جیسے مختلف گرہوں میں تقسیم کرنے والے تمام تر عناصر سے ماورا ہو کر آج خیام حسینی میں پناہ لے رہے ہیں۔

۸۔ نسل پرستی کی نفی

شہید، شہید ہی ہوتا ہے، رنگ، نسل، قوم، قبیلہ، ملک، مذہب، سن یا زبان جیسے عناصر اسکے مقام و مرتبے میں اپنا کوئی اثر نہیں رکھتے۔ اسلام میں برتری کا معیار صرف عقیدہ و ایمان اور پرہیزگاری ہے۔ کربلا اُس جلوہ گاہ شہادت کا نام ہے جس میں طرح طرح کے عطر و بو کے حامل شہیدوں نے اپنا لہو بہا کر مکتب انسانیت کی آبیاری کی ہے۔ پیر، جواں، گورا، کالا، آقا، غلام، عرب، عجم، مسلمان، غیر مسلمان وغیرہ۔ سبھی جام شہادت نوش کر کے ایک ابدی حقیقت میں تبدیل ہو گئے۔

۹۔ انسانی و اخلاقی اقدار سے سودا نہ کرنا

تحریک کربلا اخلاق و انسانیت کا مرقع ہے۔ کربلا والوں نے قدم قدم پر اسلامی و قرآنی اخلاق اور انسانیت کے ایسے گرانبہا نقوش ابھارے کہ آج دنیا انہیں دیکھ کر حیران و انگشت بدنداں ہے۔ کہیں بھی جنگ میں پہل نہ کرنا، دشمن کی ہدایت و رہنمائی کی مسلسل کوشش، خونی دشمن کے ساتھ ادب سے پیش آنا، دشمن کے پورے لشکر کو سیراب کرنا، موت کی وادی میں تمام اعزاء و اقارب کو دھکیلنے والے حر کو معاف کر دینا، چھوٹے بڑے کا احترام، آقا و غلام میں تفریق کا نہ ہونا، دشمن کی گستاخیوں پر صبر و ضبط سے کام لینا، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق الناس پر توجہ، غیرت، ایثار اور فداکاری کا مظاہرہ، سخت ترین حالات کے دوران بھی انسانی و اخلاقی اصولوں کی پاسداری، ثبات قدم اور صبر و بردباری، یہ وہ اخلاقی و انسانی کے چند ایک عناوین ہیں جن کے ذیل میں کربلا والوں نے اپنے جوہر خوب دکھائے ہیں اور اس قدر حسین انداز میں کتاب کربلا کو انکے رقم کیا تا قیام قیامت اسکی نذیر ثانی نہیں مل پائے گی۔

۱۰۔ درس جاودانی

کربلا والوں نے اپنے مکتب و مرام کی راہ میں صرف قربانی ہی نہیں پیش کی بلکہ اس انداز میں قربانی پیش کی کہ مکتب کربلا ایک ابدی حقیقت میں تبدیل ہو گیا اور پورے عالم بشریت نے اُسے ایک ممتاز مکتب ہدایت و انسانیت کے طور پر پہچانا۔ کربلا والوں نے اپنے خلوص، پاکیزگی، بصیرت، آگاہی اور اپنے امام و پیشوا کی مکمل اطاعت کے ساتھ عاشورا کو ایک ابدی مکتب کی شکل دے دی۔

تاریخ میں بہت سے اہم واقعات و اتفاقات رونما ہوتے رہے ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر گہرے اثرات بھی چھوڑے ہیں، مگر اس کے باوجود تاریخ نے انہیں اس لائق نہ سمجھا کہ انہیں ہمیشہ کے لئے اپنے دامن میں محفوظ کرے اور حتیٰ وہ انکے اثرات پر گردش و لیل و نہار اور نسیان کی گرد و غبار کی دبیز چادروں کو پڑنے سے روکنے پر بھی قادر نہ رہی۔ مگر مکتب کربلا کو اُس نے گرم آغوش میں ایسے جگہ دی کہ آج یہ مکتب افق عالم پر چمکتا حق و حقیقت وہ سورج ہے جو تا قیام قیامت آفتاب عالم تاب کے شانہ بشانہ عالم بشریت کے ضمیروں کو منور کرتا رہے گا۔

اسی حقیقت کی جانب نبی رحمت، سرتاج انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اپنے ارشاد میں اشارہ فرمایا ہے: إنّ لِقتلِ الحسینِ حرارۃً فی قلوبِ المومنین لا تَبردُ ابداً؛ قتل حسین (ع) کو لے کر صاحبان ایمان کے دلوں میں ایسی حرارت پائی جاتی ہے جو الیٰ الابد ٹھنڈی نہیں ہو سکتی۔ اس حدیث شریفہ میں آنحضرت (ص) نے ذکرِ حسین (ع) کو ابدیت سے ہمکنار ہوا ایک ذکر قرار دیا ہے۔

 

ٹیگس