Dec ۲۰, ۲۰۱۵ ۱۸:۱۳ Asia/Tehran
  • کینیڈا کی حکومت ملک کے اصلی باشندوں کے بچوں کو ان کےوالدین سے الگ کرنے پر معافی کی طلب گار
    کینیڈا کی حکومت ملک کے اصلی باشندوں کے بچوں کو ان کےوالدین سے الگ کرنے پر معافی کی طلب گار

حکومت کینیڈا نے پچھلے سو سال کے دوران ملک کے اصلی باشندوں کے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کئے جانے کے غیر انسانی عمل پر عذر خواہی کی ہے۔

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ملک کے اصل باشندوں کے ایک اجلاس میں شرکت کی اور پچھلی صدی کے دوران آنے والی مختلف حکومتوں کی جانب سے بچوں کو والدین سے الگ کرنے کے ظالمانہ اقدام پر باضابطہ معافی طلب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد سے یہ عمل کبھی نہیں دہرایا جائے گا۔

کینیڈا کے وزیراعظم نے باضابطہ معافی مانگ کر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس ملک کی پچھلی تمام حکومتیں گزشتہ ایک صدی سے ملک کے اصل باشندوں پر مظالم ڈھاتی چلی آئی ہیں۔

تحقیقات کے مطابق، اصل باشندوں کے بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر کے انہیں بورڈنگ اسکولوں میں بھجینے کی سرکار کی پالیسی دراصل کینیڈا میں ثقافتی نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ کینیڈا کے آشتی اور بحالی اعتماد کے کمیشن نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک رپورٹ میں ملکی نظام تعلیم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے اصل باشندوں کے بچوں کے لیے بورڈنگ اسکولوں کے قیام کا مقصد ان کی تہذیب کو ختم اور انہیں حکمراں طبقے کی من پسند ثقافت میں ضم کرنا تھا۔ مذکورہ کمیشن کے سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ جو کچھ ان بورڈنگ اسکولوں میں ہوتا رہا ہے وہ ثقافتی نسل کشی سے کم نہیں اور درحقیقت یہ سب اس علاقے کے اصلی باشندوں کی تہذیب و ثقافت کی جڑیں کاٹنے کا طے شدہ منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کے تحت کینیڈا کے اصلی باشندوں کے کم سن بچوں کو پانچ سال کے لیے اپنے والدین جدا کر کے دور دراز علاقوں میں قائم بورڈنگ اسکوں میں بھیج دیا جاتا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق بورڈنگ اسکولوں میں ان بچوں کے ساتھ انتہائی بدترین سلوک روا رکھا جاتا، انہیں جسمانی ایذائیں دی جاتی اور حتی انہیں بھوکا رکھا جاتا یا بہت کم غذا دی جاتی تھی۔

رپورٹ میں اٹھارہ سو چالیس سے انیس نوے کے عرصے کے دوران ایسے ڈیڑھ لاکھ بچوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں بورڈنگ اسکوں کے وحشتناک ماحول میں تمام اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔

اس رپورٹ کے مطابق ایک صدی تک جاری رہنے والی ثقافتی نسل کشی کی پالیسی کے نتیجے میں سات سے پندرہ برس کے چھے ہزار بچے حکومت کینیڈا کے قائم کردہ بورڈنگ اسکولوں میں ہلاک ہو گئے۔

ماہرین کا کہنا کہ بورڈنگ اسکول میں مرنے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان اسکول کی سرکاری انتظامیہ کوشش کرتی تھی کہ بچوں کی موت کے واقعات سامنے نہ آئیں۔

اگر چہ کینیڈا کے حکام نےاس ظالمانہ عمل پر عذر خواہی کر لی ہے لیکن اس ملک میں متعصبانہ اقدامات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت کینیڈا میں انیس فی صد بچے غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اصل باشندوں کی آبادی والے علاقوں میں یہ شرح چالیس فی صد تک بتائی جاتی ہے۔

سن دو ہزار پندرہ کی رپورٹ سے نشاندہی ہوتی ہے کہ بعض نسلوں، نئےآنے والے مہاجروں اور جسمانی طور پر معذوری کا شکار افراد میں غربت کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔

کینیڈا کے اصل باشندوں کی نمائندہ تنظیم کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے حکومت نے، متعصبانہ قوانین اور نسل پرستانہ سلوک کے ذریعے ملک میں تشدد بھڑکانے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ بہرحال کینیڈا کی لبرل حکومت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ملک کے اصل باشندوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔

ٹیگس