روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی تحقیقات کے مطالبے پر حکومت میانمار برھم
حکومت میانمار نے روہنگیا مسلمانوں پر فوج کے تشدد اور مجرمانہ اقدامات کی عالمی تحقیقات کرائے جانے کے مطالبہ پر انتہائی برھمی کا اظہار کیا ہے۔
میانمار کی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ موجودہ حالات میں، عالمی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام مسائل کے حل کے بجائے اس میں شدت کا باعث بنے گا۔میانمار کی حکومت کی جانب سے منفی ردعمل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن ملکوں نے جمعے کے روز قرارداد پاس کرکے ایک تحقیقاتی ٹیم فوری طور پر میانمار بھیجنے کی منظوری دی تھی تاکہ، فوج کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام، ایذارسانی اور جنسی تشدد کے واقعات کی چھان بین کی جاسکے۔میانمار کی فوج کے حملوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہونے والے مسلمانوں نے اقوام متحدہ کے انسپیکٹروں کو اس پر خطر سفر اور میانمار کی فوج کے ظالمانہ اقدامات کی روداد بیان کی ہے جن میں، نومولود بچوں کے قتل سے لیکر لوگوں کو زندہ جلائے جانے کے واقعات بھی شامل ہیں۔حکومت میانمار نے پہلے تو تمام الزامات کو من گڑھت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا لیکن عالمی رپورٹوں کی اشاعت اور بین الاقوامی دباؤ کے بعد، ان واقعات کی از خود تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ نے حکومت کے میانمار کے قائم کردہ تحقیقات کمیشن پر یہ کہتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اس کے پاس اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کا لازمی اختیار نہیں ہے۔ مذکورہ کمیشن ایک سابق جنرل اور میانمار کے صدر کے خصوصی معاون کی سربراہی میں قائم کیا گیا ہے۔بہرحال حکومت میانمار، جس پر انتہا پسند بدھسٹوں کا غلبہ ہے، اب تک روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق عالمی تحقیقات کرائے جانے کی درخواستوں کو مسترد کرتی آئی ہے۔روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج کا براہ راست آپریشن نو اکتوبر دوہزار سولہ کو، ایک سرحدی چیک پوسٹ پر مسلح افراد کے حملے کے بعد شروع کیا گیا تھا جس میں نو سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اور حکومت میانمار نے اس کا الزام روہنگیا مسلمانوں پر عائد کیا تھا۔روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی فوج کے منظم حملوں کے نتیجے میں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلادیش، چین، تھائی لینڈ ، ملائیشیا اور انڈونیشیا اور ہندوستان جیسے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔