ترکی میں ریفرنڈم، ہاں کے حق میں عوامی رائے
ترکی میں صدارتی نظام حکومت کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں تقریبا 99 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی ہے جس کے مطابق 51.3 فیصد عوام نے صدارتی نظام کے حق میں ووٹ دیا ہے جبکہ 48.7 فیصد ووٹ مخالفت میں ڈالے گئے ہیں۔
صدارتی اختیارات سے متعلق ہونے والے ریفرنڈم کے 99 فیصد نتائج آچکے ہیں جس میں 51.3 فیصد ووٹرز نے صدر رجب طیب اردوغان کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ریفرینڈم کے سرکاری نتائج کے اعلان کے بعد صدر رجب طیب اردوان 2029 تک عہدے پر فائز رہیں گے اور انہیں وہ اختیارات حاصل ہوجائیں گے جو اس وقت وزیراعظم کو حاصل ہیں جن میں کابینہ کے وزرا اور سینیئر ججوں کے انتخاب اور پارلیمان کو برخاست کرنے کے وسیع اختیارات شامل ہیں۔
ریفرنڈم کے لیے ایک لاکھ 67 ہزار پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھےجہاں ساڑھے 5 کروڑ رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جب کہ 2 اپوزیشن جماعتوں نے ریفرنڈم کے نتائج چیلنج کرنے کا اعلان کر تے ہوئے 60 فیصد سے زائد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ 15 لاکھ جعلی ووٹ ڈالے گئے۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوغان نے آئین میں تبدیلی کے حق میں دی جانے والی عوامی رائے کو کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنڈم میں عوام نے صدارتی نظام کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش سیکورٹی چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ترک پارلیمان نے جنوری میں آئین کے آرٹیکل 18 کی منظوری دی تھی ۔ ترکی میں گذشتہ برس ملک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد میڈیا اور دیگر اداروں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم صدر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملک کے استحکام کے لیے تبدیلیاں ضروری ہیں۔ نئی اصلاحات کے تحت ملک کے وزیراعظم کا عہدہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ نائب صدر لیں گے۔
ترکی میں صدر رجب طیب اردوغان کے اختیارات میں توسیع کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ کا عمل کل مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک جاری رہا۔ ریفرنڈم کے موقع پر پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے جن میں دو افراد ہلاک ہوئے۔