جی 20 کا سربراہی اجلاس ختم
عالمگیریت کے خلاف وسیع اور پرتشدد مظاہروں کے درمیان، دنیا کے بڑے صنعتی ملکوں کے گروپ کا سربراہی اجلاس، ہفتے کی شام جرمنی کے شہر ہمبرگ میں ختم ہوگیا۔مظاہرین، گروپ بیس کے رکن ملکوں کی ماحولیاتی، اقتصادی اور سیاسی پالیسیوں کی کھل کر مخالف کر رہے تھے۔
جرمن چانسلر نے اپنے ملک میں گروپ بیس کے اجلاس کو اختلاف رائے کی علامت قرار دیا ہے۔ اینجلا مرکل نے، گروپ بیس کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اختتامی بیان کے بارے میں اتفاق رائے کا اعلان تو کیا تاہم کہا کہ گروپ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ہرگز نہیں چھپایا جاسکتا۔انہوں نے گروپ بیس کے دو روزہ سربراہی اجلاس کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ، اس قسم کے اجلاسوں کا انعقاد انتہائی دشوار اور پیچیدہ ہوتا ہے کیوں کہ شرکا کے درمیان سازگاری پیدا کرنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔مرکل نے واضح کیا کہ، جب اختلافات رائے موجود ہوتو پھر معیار اور اصول کام نہیں آتے ہیں اور اجلاس کے رسمی بیان میں اختلافات کی بو پوری طرح محسوس کی جاسکتی ہے۔جرمن چانسلر نے کہا کہ عالمگیریت اور گروپ بیس کی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ گزشتہ روز فرانسیسی ٹیلی ویژن نے ہیمبرگ شہر کو جنگ زدہ شہر قرار دیا۔ٹرمپ اور ان کے اہل خانہ کے غیر سفارتی روئیے سے لیکر ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور امریکی مصنوعات کی بالادستی کی پالیسی تک، ہر معاملے میں ٹرمپ کو جی بیس کے اجلاس اور اسی طرح ہمبرگ کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔آب ہوا سے متعلق پیرس معاہدے کا معاملہ، گروپ بیس کے اجلاس اور اس کا اختتامی بیان ایک بنیادی محور تھا۔اجلاس کے اختتامی بیان میں سن دوہزار پندرہ کے پیرس معاہدے کو ناقابل تنسیخ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ گروپ بیس کے تمام ملکوں کو اس کی پابندی کرنا چاہیے۔گروپ بیس کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ بھی زبر بحث آیا اور اجلاس کے اختتامی بیان میں بھی اس معاملے کو شامل کیا گیا۔گروپ بیس کے رکن ملکوں کے سربراہوں نے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردوں کے مالی ذرائع روکنے کی بھی حمایت کی ہے۔مغربی ممالک دہشت گردی کے حوالے سے دوہرے معیاروں پر عمل پیرا ہیں۔یہ ممالک، غاصبانہ قبضے کے خلاف، وطن کا دفاع کرنے والی تنظیموں، حزب اللہ اور حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب شامی حکومت کے مخالف مسلح گروہوں اور دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔