Sep ۰۵, ۲۰۱۷ ۲۱:۱۷ Asia/Tehran
  • باہمی لین دین میں ڈالر سے ناطہ توڑا جائے، روسی صدر

روس کے صدر ولادی میر پوتن نے جو ان دنوں برکس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی غرض سے چین کے دورے پر ہیں بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مختلف معاملات پر اپنے ملک کی پالیسیوں کی وضاحت کی ہے۔

چین کے شہر شیامن میں اتوار کے روز شروع ہونے والا برکس کا سربراہی اجلاس منگل کے روز ختم ہوگیا ہے۔ اس اجلاس میں روسی صدر کی شرکت کا اصل مقصد عالمی تبدیلیوں میں برکس کے کردار میں اضافے کے لیے باہمی کوششوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔صدر پوتن نے برکس کے سربراہی اجلاس سے قبل تنظیم کے رکن ملکوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی لین دین میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ برکس کے رکن ملکوں کو عالمی مالیاتی نظام کی اصلاح کی جانب قدم بڑھانا چاہیے تاکہ ترقی پذیر ملکوں کو منصفانہ ماحول میں اقتصادی ترقی کے مواقع میسر آسکیں۔انہوں نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں میں بھی برکس کے رکن ملکوں کے کردار میں اضافے کو ضروری قرار دیا تھا۔صدر پوتن کا کہنا تھا کہ برکس کے رکن ملکوں کو ایک کے دوسرے کے تعاون سے، عالمی مالیاتی نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور اور تجارتی لین دین اور زرمبادلہ کے ذخیرے کے طور پر ڈالر سے ناطہ توڑنے کی کوشش کرنا ہوگی۔برکس گروپ ، سات بڑے مغربی صنعتی ملکوں کے گروپ، جی سیون کےمقابلے میں عالمی معیشت میں کردار ادا کرنے کے لیے ایسے پانچ ملکوں کے عزم کی علامت ہے جن میں سے چار ممالک، یعنی چین، ہندوستان، برازیل اور جنوبی افریقہ ابھرتی اقتصادی طاقت شمار ہوتے ہیں۔برکس گروپ میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کی بے پناہ گنجائش اور عالمی معیشت میں موثر اور فیصلہ کن کردار ادار کرنے کی توانائی موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ روس شروع ہی سے برکس کی سرگرمیوں کے دائرے کو وسیع کرنے پر زور دیتاآیا ہے اور صدر ولادی میر پوتن اس تنظیم کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔حالیہ برسوں کے دوران برکس کے رکن ملکوں کے درمیان باہمی تعاون میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جارہی ہے یہ گروپ جلد ہی عالمی مالیاتی اور اقتصادی نظام میں موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔برکس کے رکن ملکوں کا تعلق دنیا کے چار براعظموں سے  ہے  اور دنیا کے تیس فی صد رقبے پر پھیلے ہوئے برکس کے رکن ملکوں کی مجموعی آبادی دنیا کی کل آبادی کا بیالیس فی صد ہے۔یہ ممالک عالمی معیشت کے تیس فی صد حصے کے مالک ہیں اور ان کی مجموعی معیشت سترہ ٹریلین ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔برکس میں صرف ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتیں ہی شامل نہیں ہیں بلکہ اس میں جوہری توانائی اور فوجی طاقت رکھنے والے ملک کی حثیت سے روس بھی شامل ہے اور یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ برکس کے رکن ممالک مستقبل کی دنیا میں بائی پولر سسٹم کے اہم ترین رکن شمار ہوتے ہیں۔

ٹیگس