Mar ۱۸, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۸ Asia/Tehran
  • میانمار کے مسلمانوں کے مسائل کے حل پر زور

ملائیشیا کے وزیر اعظم نے سڈنی میں جاری آسیان کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ اب میانمار کا اندرونی معاملہ نہیں ہے اور اس بحران نے خطے کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والے جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی تنظیم آسیان کے دو روزہ اجلاس میں شریک میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو روہنگیا کے معاملے میں خاموشی برتنے پر کڑی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔
ملائشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق نے کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے بحران نے خطے کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے جسے مستقل بنیادوں پر حل کئے جانے کی ضرورت ہے اور ان کا ملک اس سلسلے میں ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے۔
اسی دوران شہری اور انسانی حقوق کے ہزاروں حامیوں نے سڈنی میں مظاہرہ کر کے میانمار کے مسلمانوں کے خلاف حکومت کے مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ بند کرانے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے حکومت آسٹریلیا پر بھی روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے لاتعلقی کا الزام عائد کرتے ہوئے آسیان اجلاس میں آنگ سان سوچی کو بلانے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
مظاہرین نے آنگ سان سوچی کو ڈکٹیٹر اور موجودہ دور کا ہٹلر قرار دیتے ہوئے ان سے نوبل انعام واپس لیے جانے کا بھی مطالبہ کیا۔
آسٹریلیا کے وکلا اور قانون دانوں نے میانمار حکومت کی مشیر اعلی اور وزیرخارجہ آنگ سان سوچی کے خلاف کیس تیار کیا ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
ملبورن شہر کے متعدد وکلا اور قانون دانوں کا کہنا ہے کہ سوچی نے میانمار میں انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے وہ امن کے نوبل انعام کی اہل نہیں رہی ہیں۔
آسٹریلوی وکلا اور قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے بے شمار ثبوت و شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کا بہیمانہ طریقے سے قتل عام کیا گیا ہے۔
آسٹریلوی وکلا کا کہنا ہے کہ جرائم کو دیکھنے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف یہ انسانیت سوز اقدامات فوج کے ہاتھوں منصوبہ بند اور منظم طریقے سے انجام دیئے گئے ہیں۔

ٹیگس