شام پر ناکام حملہ، ٹرمپ کی مشکلات میں اضافہ
امریکی صدر کو شام پر حملے کا حکم دینے کی بابت اپنی جماعت کے ارکان اور حامیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ دوسری جانب سی این این نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے شام میں کیمیائی مواد کی موجودگی کے بارے میں اطمینان حاصل کئے بغیر حملے کا حکم دیا تھا۔
امریکی جریدے ہل نیوز کے مطابق صدر ٹرمپ کے متعدد حامیوں نے شام پر فوجی کارروائی کا حکم دینے کی بابت کڑی نکتہ چینی کی ہے اور اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیا ہے۔ جریدے کے مطابق صدر ٹرمپ کے متعدد حامیوں کا کہنا ہے کہ شام پر حملے کے فیصلے سے انہیں بڑی مایوسی ہوئی ہے۔
جریدے نے ٹرمپ کی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب چند روز قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
ہیل نیوز نے کانگریس کی اجازت کے بغیر شام میں حملے کا حکم دیئے جانے پر ریبپلکن ارکان کی جانب سے کی جانے والی تنقیدوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ریپبلکن رکن تھامس میسی کا خیال ہے کہ شام پر حملہ امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب سی این این نے انکشاف کیا ہے کہ شام کے پر حملے کے لیے موجودہ دستاویزات میں صرف چند تصاویر اور مجازی نمونوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ سی این این کے مطابق فوجی اور انٹیلیجینس ذرائع نے اسے بتایا ہے کہ امریکی اداروں کو اس بات کا اطمینان حاصل نہیں تھا کہ شام کے شہر دوما میں کیمیائی حملہ حکومت شام نے کیا ہے لیکن اس کے باجود صدر ٹرمپ نے میزائل حملوں کا حکم جاری کیا۔
ایک اور امریکی فوجی عہدیدار نے بتایا ہے کہ حملے سے پہلے اس بات کا اطمینان حاصل کرنا ممکن نہیں تھا کہ دوما میں کیمیائی مواد کا استعمال شامی حکومت نے کیا ہے۔
درایں اثنا بعض امریکی عہدیدار حالیہ ناکام حملے کے بعد شام پر دوبارہ حملے کے لیے نیا ڈرامہ تیار کر رہے ہیں۔
نیوز اینجنسی رائٹرز کے مطابق بعض امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے حالیہ حملے کا شام کی حکومت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے اور اب وہ اس سے بھی زیادہ شدید حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام کے شہر دوما میں کیمیائی حملے کا ڈرارمہ رچا کر اس ملک کے مختلف علاقوں پر میزائل حملے کر دیئے تھے۔