جوہری معاہدہ اہم سفارتی دستاویز: پوتین اور اردوغان کا اعلان
روس کے صدر ولادیمیر پوتین اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کل رات ٹیلی فونی گفتگو کرتے ہوئے جوہری معاہدے کو بر قرار رکھنے پر تاکید کی۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق اس ٹیلیفونی گفتگو میں ترکی اور روس کے صدور نے جوہری معاہدے کو اہم سفارتی دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے امریکہ نے نکل کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔
ادھرامریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے نکلنے پر عالمی سطح پر رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی فیڈریکا موگرینی نے ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ اسلامی جمہوریہ ایران اور دنیا کے تمام ممالک کے درمیان کئی سالہ مذاکرات کا نتیجہ ہے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، آسٹریا اور بیلجیم نے بھی ٹرمپ کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے پر زور دیا۔
برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر نے منگل کی رات ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کیا-
تینوں ممالک نے اس بیان میں کہا کہ جوہری معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے مطابق منظور کیا گیا ہے لہذا یہ معاہدہ سیکورٹی کے لحاظ سے ہمارے لئے بہت ہی اہم ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے مطابق بین الاقوامی ایٹمی معاہدہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے معاملات کے لئے قانونی حل ہے اسی لئے ہم تمام فریقوں سے اس پر قائم رہنے اور مکمل عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
در ایں اثنا اٹلی کے وزیر اعظم پائولو جنٹیلونی نے امریکی صدر کے فیصلے کے بعد ٹوئٹ کرتے ہوئے جوہری معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا۔ ادھر ناروے کی وزیر خارجہ اینے میری اریکسن سوریڈ نے بھی اپنے ٹوئٹ میں جوہری معاہدے سے نکلنے کے امریکی صدر کے اعلان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جوہری معاہدے کے دوسرے فریقوں سے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں۔
آسٹریا کے وزیر خارجہ کارین کنایسل نے بھی عالمی جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر امریکہ کے نکل جانے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جوہری معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ ایٹمی معاہدے کا نتیجہ مثبت نکلے گا۔
بیلجبیم کے وزیر اعظم چارلز میشل نے بھی جوہری معاہدے سے ٹرمپ کے نکلنے کے فیصلے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے سے نکلنے کا مطلب مشرق وسطی کو ناامن کرنا ہے۔
یورپی ممالک کے بیان کے مطابق آئی اے ای اے کو کسی رکاوٹ کے بغیر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے اور جب تک ایران اپنے وعدوں پر قائم ہے اس کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے-
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوترش نے بھی ایٹمی معاہدے سے امریکی صدر ٹرمپ کے نکلنے کے اعلان کے بعد ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدہ ایک بڑا اور عظیم سفارتی کارنامہ ہے جو عالمی امن و سلامتی کی تقویت میں مدد دے رہا ہے-
روسی وزارت خارجہ نے بھی ٹرمپ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے اس معاہدے کی مکمل طور پر پابندی کی ہے اور اس حقیقت کی آئی اے ای اے نے بارہا تائید بھی کی ہے-
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی رات ایک بار پھر ایران اور جوہری معاہدے کے خلاف پرانے الزامات کی تکرار کرتے ہوئے اس معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کا اعلان کیا۔
ٹرمپ نے ایسے وقت میں جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا کہ جب آئی اے ای اے نے اپنی گیارہ رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا ہے- امریکی صدر کے اس اعلان کی صرف غاصب صیہونی حکومت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہی حمایت کی ہے۔