رجب طیب اردوغان کی کامیابی
رجب طیب اردوغان نے پہلے ہی مرحلے میں صدارتی انتخاب واضح اکثریت سے جیت لیا ، سپریم الیکشن کمیٹی چیف نے اعلان کر دیا ۔
حتمی سرکاری اعلان جمعہ کو کیا جا ئے گا تاہم سرکاری میڈیا رپورٹس کے مطابق رجب طیب اردوغان نے 52.5 فیصد ووٹ حا صل کر کے میدان مارلیا۔
حزب اختلاف کے محرم انسے 31.7 فی صد ووٹ حا صل کر سکے ۔
ترک میڈیا کے مطابق صدر اردوغان کے مدِ مقابل محرم انسےنے اپنی شکست قبول کرلی ہے۔
اردوغان کا کہنا ہے کہ ملک سنوارنے کا وقت آگیا ہے۔
صدر رجب طیب اردوغان نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے مجھے صدارت کے لیے مینڈیٹ دے دیا ہے، عدلیہ پر اعتبار بڑھانے کےلیے اقدامات جاری رہیں گے، امید ہے انتخابی نتائج پر انگلی اٹھاکر جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ انتخابی کشیدگی کو بھلا کر ملک کے مستقبل پر توجہ دیں، ہم انسانی حقوق اور شہری آزادی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں، دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرکے ترکی کو ڈرانے والوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے، جمہوریت اور معیشت کی بہتری کا سفر جاری رکھیں گے۔
ترک میڈیا کے مطابق صدارتی انتخاب کی دوڑ میں عوامی اتحاد کے رجب طیب اردوغان ، جمہوریت عوام پارٹی کے محرم انجے، کرد سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے صلاح الدین دمیرتش، فضیلت پارٹی کے تیمل کرمولا اولو اور وطن پارٹی کے دواُو پیرنچک کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں سابق صدررجب طیب اردوغان نے ایک بار پھر اپنے حریفوں کو شکست دے دی۔ انہوں نے اپنے حریفوں کے مدمقابل 52.5 فیصد ووٹ لے کر سبقت حاصل کی۔
صدارتی انتخاب کے ساتھ ساتھ طیب اردگان کی جماعت ’اے کے پارٹی‘ کو پارلیمان میں واضح برتری حاصل ہے، ترک میڈیا کے مطابق تقریباً 44 فیصد ووٹوں کے ساتھ ’اے کے پارٹی‘ پھر سے حکومت بنانے جارہی ہے۔
ادھر انتخابات میں کامیابی پر متعدد عالمی رہنماؤں خصوصاً اسلامی ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں نے رجب طیب اردوغان کو مبارکباد پیش کی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ منعقد ہوئے۔ ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 63 لاکھ 22 ہزار 632 تھی جب کہ ساڑھے 30 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں نے بھی ووٹ ڈالا۔
پارلیمانی انتخاب کے لیے ترکی میں 8 سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہوا ۔
واضح رہے کہ صدارتی انتخابات اگلے سال ہونے تھے لیکن رجب طیب اردوغان نے قبل از وقت الیکشن کا اعلان کرکے دونوں انتخاب ایک ساتھ کرانے کا فیصلہ کیا۔