ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے مخالفین اور حامیوں کے مظاہرے
امریکی صدر کی امیگریشن پالیسی کے حامیوں اور مخالفین نے ریاست کنٹیکی کے شہر لوئس ول میں مظاہرے کئے ہیں۔
امیگریشن اور کسٹم ایجنسی پر قبضہ کرو نامی گروپ، ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کی مخالفت میں جبکہ تھری پرسنٹ نامی گروپ اس کی حمایت میں سڑکوں پر اترا تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور حتی گالیاں بھی دیں۔
تھری پرسنٹ گروپ کا خیال تھا کہ صرف تین فی صد امریکی شہریوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی تھی اور وہ ملکی آئین کے نفاذ کے لئے فوجی طاقت کے استعمال کا مطالبہ کر رہا تھا۔
امیگریشن اور کسٹم ایجنسی پر قبضہ کرو گروپ، آکوپائے آئی سی ای نے ایک ہفتہ قبل لوئس ول میں امیگریشن اینڈ کسٹم ایجنسی کے دفتر کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔ اس گروپ کے ارکان دونوں اداروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اسی دوران ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے مخالفین نے مشہور رپپبلکن سینیٹر مچ میک کونل کو ریستوران سے نکلنے سے روکنے کی کوشش کی اور انہیں کافی دیر تک اپنے گھیرے میں لئے رکھا۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے میک کونل کو اس وقت گھیر لیا جب وہ لوئس ول کے ایک ریستوران سے باہر آنا چاہتے تھے، اس موقع پر لوگوں نے امیگریشن اینڈ کسٹم ایجنسی آئی سی ای کو بند کرو جیسے نعرے بھی لگائے۔
میک کونل کے علاوہ امریکہ کی انٹرنل سیکورٹی کے وزیر کرسٹین نیلسن کو بھی کئی بار ریستورانوں، حتی اپنے گھر سے نکلتے وقت لوگوں کی بڑی تعداد گھیر چکی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی تارکین وطن کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، اس پالیسی کے تحت امریکہ میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کو والدین سے جدا کر کے الگ الگ کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے اور والدین سے جدا ہونے والے کئی ہزار بچوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہو گا۔
دوسری جانب امریکی نیوز چینل پی بی ایس نے ایک مہاجر بچے کے ساتھ امریکی اہلکاروں کے ناروا سلوک کی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چودہ ماہ کے اس بچے کو ایک عرصے کے بعد ایسے حالت میں اس کے والدین کو لوٹا دیا گیا کہ اس کو نہلایا دھلایا تک نہیں گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بچے کے جسم میں انفیکشن پھیل گیا تھا اور پورے جسم میں جوئیں بھری ہوئی تھیں۔
امریکی قانون کے مطابق اگر والدین اپنے بچے کو تین ماہ تک نہ نہلائیں تو انہیں بچے کے ساتھ بد سلوکی کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور یہ سلوک امریکی حکومت نے ایک ایسے بچے کے ساتھ کیا جو بات بھی نہیں کر سکتا۔
کہا جا رہا ہے کہ رواں سال مئی کے آغاز سے اب تک دو ہزار تین سو سے زائد بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر کے ان کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے جو امریکی وزارت صحت کے نگرانی میں قائم کئے گئے ہیں جن میں سے تقریبا ایک ہزار بچوں کی عمریں پانچ سال سے بھی کم بتائی جاتی ہیں۔