آخر امریکا کب سبق سیکھے گا؟ + مقالہ
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا جو اجلاس امریکی صدر نے ایران کے خلاف منعقد کیا تھا وہ واشنگٹن کے دوستوں، دشمنوں اور حریفوں نے ٹرمپ کی پالیسیوں پر تابڑ توڑ حملوں کے اجلاس میں تبدیل کر دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےعام تباہی کے ہتھیاروں کی توسیع روکنے کے موضوع پرمنعقد ہونے والے سیکورٹی کونسل کے اجلاس کی سربراہی کی کرسی پر بیٹھتے ہی ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کی جھڑی لگا دی، البتہ وہی گھسے پٹے اور جھوٹے الزامات۔
اس بار جو چيز ان کے لئے نئی تھی وہ یہ تھی کہ ان کے علاوہ اس نشست میں سبھی مقررین نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور واضح الفاظ میں کہا کہ ایران کے بارے میں ان کا رویہ، امریکی رویے سے مختلف ہے۔
یہ اجلاس حالانکہ عام تباہی کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر روک کے نام سے منعقد ہو رہا تھا لیکن جلد ہی پتہ چل گیا کہ اس کا مقصد، ایران کے خلاف اجماع تیار کرنا تھا۔ ٹرمپ نے اس اجلاس میں دعوی کیا کہ ایٹمی سمجھوتہ ایک بیہودہ سمجھوتہ تھا جس نے ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے راستے میں پیشرفت کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ایران، امریکی انتخابات میں مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ وہ دوبارہ صدر نہ بن سکیں۔
جیسے ہی ٹرمپ کی تقریر پوری ہوئی ویسے ہی اجلاس میں موجود افراد نے ان پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے۔ فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے جن کے ٹرمپ سے نزدیکی تعلقات ہیں، امریکی صدر کی خواہشات کے برخلاف انہیں مایوس کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی سمجھوتہ ایک سنجیدہ سمجھوتہ ہے اور سبھی فریق کو اس پر عمل کرنا چاہئے۔
میکرون نے تو ٹرمپ کو مایوس کر دیا لیکن امریکی صدر کو شاید اپنے انگریز دوستوں اور لندن- واشنگٹن خاص تعلقات سے بہت امیدیں واسبتہ تھیں لیکن ان کی یہ امید بھی زمین بوس ہو گئي کیونکہ برطانیہ کی وزیراعظم ٹریزا مے نے بھی سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں واضح الفاظ میں کہا کہ ایران نے جے سی پی او اے پر عمل در آمد کے حوالے سے اپنے وعدوں پر پوری طرح عمل کیا ہے۔ ٹریزا مے کے بعد سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل رکن بولیویا کی باری تھی۔ اس ملک کے صدر ایوو مورالیس نے جیسے ٹرمپ کی بولتی ہی بند کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے خلاف امریکا کی یکطرفہ پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح ایٹمی سمجھوتے سے امریکا کی علیحدگی، ایران پر بے بنیاد الزام لگانے اور اس کے داخلی امور میں امریکا کی مداخلت کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ جب ایوو مورالیس تقریرکر رہے تھے تو ٹرمپ ان کے سامنے مجسمہ بنے چپ چاپ بیٹھے ہوئے انہیں دیکھ رہے تھے۔
مورالیس کے بعد تقریر کی باری تھی چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی۔ انہوں نے سفارتی اور قانونی تقریر میں ٹرمپ اور ان کی ٹیم پر شدید نکتہ چینی کی۔ وانگ یی نے کہا کہ ایٹمی سمجھوتہ نہایت ہی اہم بین الاقوامی سمجھوتہ ہے اور سبھی کو اس پر عمل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سمجھوتہ، کثیرالجہتی کوششوں کا نتیجہ ہےاور اہم مسائل کے حل کے لئے سفارتی کوششوں کا ایک کامیاب نمونہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے اسی طرح امریکا کی پابندی لگانے کی پالیسی کی بھی مذمت کی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سبھی ممالک کو پہلے کی طرح ایران کے ساتھ معمول کی تجارت اور اقتصادی تعلقات رکھنے کا حق ہے۔
آخر میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاورف کی نوبت تھی اور انہوں نے اپنی تقریر کے شروع میں ہی کہہ دیا کہ ایٹمی سمجھوتے کو باقی رہنا چاہئے کیونکہ اگر یہ سمجھوتہ باقی نہ رہا تو مشرق وسطی کے علاقے میں افراتفری پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے امریکا کے تضاد رویے پر بھی طنز کیا اور کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکا کی یکطرفہ علیحدگی، عام تباہی کے ہتھیاروں کی توسیع کے نظام کے لئے نقصان دہ ہے۔ آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ ایران اپنے وعدوں پرعمل پیرا ہے اور اس کی تائید آئی اے ای اے نے بھی کی ہے۔
اجلاس کی فضا ٹرمپ کے لئے اتنی ناقابل برداشت ہوچکی تھی کہ وہ درمیان میں ہی اپنی سیٹ سے اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کو اجلاس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے اور دوسروں کے شہ تیر کھانے کے لئے اپنے مقام پر بٹھا دیا لیکن وہ بھی امریکا کی نکتہ چینیوں کا سیلاب نہیں روک سکیں۔ اس اجلاس کے بعد ایران کے وزیر خارجہ نے ٹویٹ کیا کہ امریکا ایک بار پھر تنہا ہو گيا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر امریکا کب سبق سیکھے گا؟