دو سالہ طوفان الاقصی
شرمناک شکست اور بے گناہوں کے خون سے سنے غاصب اسرائیل کے ہاتھ، نسل کشی طاقت نہیں، بے بسی کی علامت ہے
طوفان الاقصی نے نہ صرف قابض قوتوں کو عسکری، اخلاقی اور سیاسی محاذ پر بے نقاب کیا بلکہ امتِ مسلمہ اور عالمی ضمیر کو بیدار کر کے فلسطینی مزاحمت کو ایک عالمگیر تحریک میں بدل دیا۔
فلسطینی مزاحمت کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو شروع کی جانے والی جرات مندانہ کارروائی "طوفان الاقصی" نے دنیا بھر میں ایک نئی بیداری کو جنم دیا۔ یہ کارروائی نہ صرف اخلاقی، روحانی اور سیاسی قیام کی علامت بنی بلکہ اسرائیلی قبضے اور ناانصافی کے خلاف ایک تاریخی موڑ ثابت ہوئی۔
فلسطینی علماء کی تنظیم کے سربراہ، نواف تکروری نے اس آپریشن کی دوسری سالگرہ کے موقع پر ترک میڈیا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اس کارروائی کی اہمیت، اسرائیلی ریاست پر اس کے اثرات اور غزہ میں جاری نسل کشی پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
نواف تکروری کے مطابق، "طوفان الاقصی" نے اسرائیل کی برسوں سے قائم کردہ عسکری برتری، انٹیلی جنس کی بالادستی اور مکمل کنٹرول کے تصور کو ایک لمحے میں ہی چکنا چور کردیا۔ یہ کارروائی اسرائیلی طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بنی اور دنیا کے سامنے اسرائیل کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ اس آپریشن نے ان جرائم کو بے نقاب کیا جو طویل عرصے سے چھپائے جا رہے تھے۔ ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد کی تباہی، بچوں اور خواتین کا قتل عام، اور ان عالمی طاقتوں کی منافقت جو انسانی حقوق کے دعویدار ہیں۔ یہ سب اب دنیا کے سامنے آشکار ہوچکے ہیں۔

نسل کشی طاقت نہیں، بے بسی کی علامت
طوفان الاقصی کے بعد، اسرائیل نے غزہ پر ہمہ گیر حملہ شروع کیا۔ ایک ایسی مہم جو نسل کشی، بھوک اور تباہی پر مبنی ہے اور اب اپنے دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ مظالم طاقت کے اظہار کے لیے نہیں، بلکہ خوف اور ذلت کے نتیجے میں کیے جارہے ہیں۔
جو جرائم آج قابض قوتیں انجام دے رہی ہیں، وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ وہ اپنی عسکری برتری، بیانیے پر کنٹرول اور اخلاقی مقام کھوچکے ہیں۔ وہ قتل کرتے ہیں تاکہ طاقتور نظر آئیں، مگر ہر بم جو وہ گراتے ہیں، ان کی کمزوری کو مزید بے نقاب کرتا ہے۔
67 ہزار سے زائد شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہونے کے باوجود، غزہ کے عوام ثابت قدم ہیں۔ خاندان بھوک، بے گھر ہونے اور پورے محلوں کے مٹ جانے کو برداشت کر رہے ہیں، مگر اپنی سرزمین چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہی عوام کی استقامت ہے جو قابضین کو خوفزدہ کیے ہوئے ہے۔ مزاحمتی قوتوں کا اسرائیلی زیرکنٹرول علاقوں میں داخل ہونا، فوجی اڈوں پر قبضہ کرنا اور اسرائیلی فوجیوں کو قیدی بنانا، 1948 کے بعد پہلی بار اسرائیل کو ایک نفسیاتی اور اسٹریٹجک دھچکا دینے کے مترادف تھا۔
نواف تکروری نے کہا کہ "طوفان الاقصی" نے فلسطینی کاز کو نئی زندگی دی، جسے برسوں سے نظرانداز اور خیانت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ یہ آپریشن نہ صرف ایک عسکری کامیابی تھی بلکہ ایک نظریاتی فتح بھی تھی، جس نے دنیا کو فلسطین کی جدوجہد کی اصل تصویر دکھائی۔

ایسا طوفان جس نے دنیا کو ہلا دیا
فلسطینی مزاحمت کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو شروع کی جانے والی کارروائی "طوفان الاقصی" صرف غزہ تک محدود نہ رہی، بلکہ اس کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے گئے۔ اس طوفان نے عالمی سطح پر منافقت، دوغلے پن اور خاموشی کو بے نقاب کیا اور انسانیت، اصول پسندی اور یکجہتی کی نئی مثالیں قائم کیں۔
لندن، نیویارک، مادرید، جکارتہ اور دیگر عالمی شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے، جنہوں نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ مظاہرے مغربی جمہوریتوں کے دعووں کو چیلنج کرتے ہیں — وہی حکومتیں جو آزادی اور انسانی حقوق کی بات کرتی ہیں، مگر نسل کشی کی حمایت میں سرگرم ہیں۔
اکتوبر 2023 سے اب تک، دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے فلسطین کے حق میں تاریخی مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ اسپین، آئرلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک نے اسرائیلی مظالم کے خلاف جرات مندانہ مؤقف اختیار کیا، جبکہ امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک نے نہ صرف اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا بلکہ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر کے اپنی اخلاقی قیادت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

عرب اسرائیل قربت کی کوششیں ناکام
طوفان الاقصی سے قبل، کئی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ مگر آج یہ منصوبے خاک میں مل چکے ہیں۔ اس طوفان نے ہر باعزت فرد کے لیے تک ابیب کے ساتھ تعلقات کے دروازے بند کر دیے۔ جو لوگ کبھی قابض قوتوں کو گلے لگانے کے خواہاں تھے، آج اپنی قوم کے سامنے شرمندہ اور خاموش ہیں۔ اگر تعلقات کے قیام کا عمل جاری رہا، تو یہ صرف چند کرپٹ حکمرانوں کی خواہش ہوسکتی ہے لیکن عوام اس کے مکمل مخالف ہیں۔ امت مسلمہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ فلسطین فروخت کے لیے نہیں۔
مراکش سے انڈونیشیا تک غم و غصّے سے لبریز عوام نے حکومتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی کریں۔ اسلامی دنیا میں عوامی رائے واضح طور پر فلسطینی مزاحمت کے حق میں اور تل ابیب یا واشنگٹن کے حامیوں کے خلاف ہوچکی ہے۔

مجاہدین کے بغیر کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے پیش کردہ حالیہ منصوبہ دراصل ایک نئی نوآبادیاتی سازش ہے، جس کا مقصد خطے میں صہیونی-امریکی تسلط کو بحال کرنا ہے۔ یہ کوئی امن منصوبہ نہیں بلکہ ایک نیا "سائکس-پیکو" معاہدہ ہے، جس کے ذریعے فلسطین اور غزہ کی قسمت کا فیصلہ میدانِ جنگ کے مجاہدین کو نظرانداز کر کے کیا جا رہا ہے۔ جو کسی بھی طور پر قبول نہیں۔ فلسطینی مزاحمت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ غزہ یا فلسطین کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ ان مجاہدین کے بغیر نہیں کیا جاسکتا جو میدان جنگ میں قربانیاں دے رہے ہیں۔ جو بھی ملک اس اصول کو نظرانداز کرے گا، وہ خیانت کا مرتکب ہوگا۔
اگر ٹرمپ کا منصوبہ قبول کر لیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسرائیلی قبضہ ہمیشہ کے لیے مستحکم ہو جائے گا۔ حکومتیں یا تو اس منصوبے کو کھلے عام مسترد کریں گی، یا پھر تاریخ میں غداروں کے انجام سے دوچار ہوں گی۔ اس منصوبے میں اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ اس کے تحت غزہ پر بیرونی کنٹرول مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو ایک نوآبادیاتی انتظامیہ قائم کرنا چاہتے ہیں، جو امن نہیں بلکہ قبضے کی ایک نئی شکل ہے۔
امن کے نام پر قبضے کی سازش
ٹرمپ کا نام نہاد امن منصوبہ درحقیقت قبضے کو وسعت دینے کی کوشش ہے۔ کسی بھی حقیقی معاہدے میں اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہونا چاہیے۔ جو کچھ پیش کیا گیا ہے، وہ ایک فریب ہے۔ نہ صرف فلسطین بلکہ ہر اس عرب ملک کے لیے ایک فریب ہے جو اس پر دستخط کرے گا۔
غزہ سے آنے والے پیغامات واضح ہیں کہ اس منصوبے کو مسترد کریں۔ اس منصوبے سے نہ تو قتلِ عام رک جائے گا اور نہ ہی جبری مہاجرت کا سلسلہ ختم ہوگا، بلکہ صہیونی مظالم میں مزید اضافہ ہوگا۔
ظلم کے خلاف عالمی بیداری
فلسطینی مزاحمت کے "طوفان الاقصی" آپریشن کا اثر صرف عسکری میدان تک محدود نہ رہا، بلکہ اس نے دنیا بھر میں ایک اخلاقی بیداری کو جنم دیا۔ غزہ سے آنے والی استقامت اور ایمان کی تصاویر نے عالمی سطح پر تحریکوں کو متاثر کیا، اور عام شہریوں، طلبہ و طالبات اور سماجی کارکنوں نے اپنی حکومتوں کی خاموشی کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ غزہ کے عوام نے اپنے درد و رنج کے ذریعے دنیا کے ضمیر کو بیدار کیا۔ مغربی جامعات کے نوجوان، سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین، بائیکاٹ کرنے والے شہری اور سچ بولنے والے افراد یہ سب طوفان الاقصی کے اثرات ہیں۔ اس آپریشن نے مختلف تحریکوں کو ایک مشترکہ مطالبے یعنی "انصاف" کے تحت متحد کیا ہے۔ جنگ مخالف اتحاد، نوآبادیاتی نظام کے خلاف سرگرم کارکن، اور کمیونٹیز نے جنوبی افریقہ کی نسل پرستی مخالف جدوجہد کی طرز پر عالمی یکجہتی کو زندہ کیا ہے۔
ایمان، مزاحمت اور آزادی کا وعدہ
قابض قوتیں سمجھتی ہیں کہ تباہی ہمارے حوصلے کو توڑ سکتی ہے، مگر ہر شہید بچہ، ہر اجڑا ہوا گھر ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ قبضہ صرف اس وقت ختم ہوگا جب قابض صہیونی حکومت کی خیالی تصویر مکمل طور پر بے نقاب ہوجائے گی۔ ایمان اور انصاف پر مبنی مزاحمت ہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ غزہ کے مجاہدین سیاسی اقتدار کے لیے نہیں، بلکہ امت کی عزت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ وہ ہمارے دور کا زندہ ضمیر ہیں۔ کوئی معاہدہ، کوئی طاقت، کوئی بیرونی دباؤ ان کی آواز کو خاموش نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کی قربانیوں کے اثرات کو مٹا سکتا ہے۔
سرحدوں سے ماورا ایک پیغام حریت
طوفان الاقصی کے دو سال بعد، فلسطینی جدوجہد ایک مقامی مزاحمت سے بڑھ کر ایک عالمی اسلامی تحریک میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یمن کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملے، حزب اللہ کی سرحدی جھڑپیں اور جکارتہ سے لے کر جوہانسبرگ تک یکجہتی کے مظاہرے یہ سب مزاحمتی محاذ کے پھیلاؤ کا ثبوت ہیں۔
فلسطین کی جدوجہد آج عالم اسلام کے لیے ایک اخلاقی قطب نما بن چکی ہے۔ ایک ایسا نصب العین جو مظلوموں کو متحد کرتا ہے اور ظالموں اور ان کے حامیوں کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ طوفان الاقصی صرف ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک نظریے کی تجدید، امت کی بیداری اور ایک فرسودہ قبضے کے خاتمے کی شروعات ہے۔