ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا بہت پسند ہے
سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے بلومبرگ نیوز ایجنسی سے گفتگو میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ تیل سے متعلق ٹرمپ کی خواہش کو پورا کر دیا گیا ہے، کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا بہت پسند کرتے ہیں۔
سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعلقات کی ماہیت بالکل الگ نوعیت کی ہے اس لئے کہ سعودی حکام امریکی حکومت سے بے انتہا وابستہ ہیں اور اس وابستگی کی بابت وہ بے تحاشہ اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں مگر واشنگٹن ریاض کو ذلت و خوار کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ریاست میسی سیپی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئۓ سفارتی آداب کا پاس و لحاظ رکھے بغیر ایک بار پھر کہا ہے کہ انھوں نے سعودی شاہ سے کہہ دیا ہے تم، امریکی حمایت کے بغیر دو ہفتے بھی اقتدار میں باقی نہیں ٹک سکتے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان پر سفارتی حلقوں کی جانب سے مختلف قسم کے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب کی سرکاری سطح پر اور کھلی و اعلانیہ طور پر تذلیل کر رہے ہیں۔
دریں اثنا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بلومبرگ نیوز ایجنسی سے گفتگو میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ دوستی میں تمہارے بارے میں اچھی اور بری باتیں کی جاتی رہیں گی۔
انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ وہ بذات خود امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا بہت پسند کرتے ہیں۔
سعودی ولی عہد کا یہ بیان ایک جانب مشرق وسطی کے علاقے میں سعودی عرب کے کمزور موقف میں قرار پانے کے مترادف ہے اور دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ کے ہاتھوں سیاسی طور پر ذلت و رسوائی برداشت کئے جانے جیسا ہے۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ محمد بن سلمان نے اس گفتگو میں اعلان کیا ہے کہ انھوں نے تیل سے متعلق امریکی صدر کے کہنے پرعمل کیا ہے۔
ٹرمپ نے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک میں اپنے اتحادیوں سے خاص طور سے سعودی عرب سے کہا ہے کہ وہ ایران کے تیل کی برآمدات کو کم یا زیرو پر پہنچائے جانے کی صورت میں منڈی میں تیل کی قلت کے ازالے کے لئے مزید پیداوار کی کوشش کریں گے۔
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے اس بارے میں کہا ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے اوپیک کے تمام دیگر رکن ملکوں سے کہا ہے کہ وہ اس بات کا یقین دلائیں کہ ایران کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کو پورا کرنے کے لئے وہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں گے اور عملی طور پر ایسا ہی ہوا بھی ہے۔