امریکی جمہوریت میں صدر سے سوال کرنے کی اجازت نہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سوال پوچھنے پر چراغ پا ہوگئے اور وائٹ ہاؤس میں صحافی کے داخلے پر پابندی لگا دی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ سی این این کے رپورٹر جم اکوسٹا نے پناہ گزینوں سے متعلق سوال کیا جس پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پناہ گزین امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل نہ ہوں بلکہ قانونی طور پر آئیں۔
جم اکوسٹا نے ٹرمپ کی توجہ ان کے اس بیان کی جانب کروانے کی کوشش کی جس میں انہوں نے وسطی امریکا سے جنوبی امریکی سرحد کی جانب آنے والے پناہ گزینوں کے قافلے کو امریکا پر حملہ قرار دیا تھا۔ جم اکوسٹا نے کہا کہ یہ کوئی حملہ نہیں بلکہ مہاجرین کا قافلہ تھا جس پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسے امریکا پر دھاوا ہی سمجھتے ہیں۔ جم اکوسٹا نے اس حوالے سے دوبارہ اعتراض کرنا چاہا تو ٹرمپ نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ بہتر ہے کہ تم مجھے ملک چلانے دو اور خود سی این این چلاؤ۔
صحافی نے دوبارہ کوئی سوال کرنا چاہا تو امریکی صدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اشارہ کیا جس پر وائٹ ہاؤس کی خاتون رضاکار نے آگے بڑھ کر اکوسٹا سے مائیک چھیننا چاہا تو اکوسٹا نے مائیک کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور نہیں دیا۔ پھر اکوسٹا نے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت پر سوال پوچھا تو ٹرمپ بولے یہ صرف افواہ ہے اور کچھ نہیں، بس کافی ہے، مائیک رکھ دو۔
ٹرمپ نے کہا کہ سی این این کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ تم جیسے لوگ اس میں کام کر رہے ہیں، تم ایک گھٹیا اور بدتمیز شخص ہو۔ بعد ازاں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جم اکوسٹا کا وائٹ ہاؤس میں داخلے کا اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا جس میں کہا گیا کہ صحافی نے نوجوان خاتون سے دست درازی کی۔
صحافی پر بے بنیاد الزام اور امریکی صدر ٹرمپ کے غیر جمہوری رویے کی نہ فقط صحافتی حلقوں نے مذمت کی بلکہ عالمی سطح پراسے امریکی جمہوریت کے بارے میں ٹرمپ کی دوغلی پالیسی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے آزادی بیان کے خلاف نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں کی واضح تضاد بیانی قرار دیا گیا ہے۔