بیوقوف ٹرمپ کے جھگڑے اور امریکا کا داخلی ماحول + مقالہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے وائٹ ہاوس میں داخل ہوئے ہیں شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو جب کسی نہ کسی سے ان کی لفظی جنگ نہ ہوئی ہو۔
ٹرمپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیان بازی میں کسی حد کو قبول نہیں کرتے وہ کبھی بھی کچھ بھی بول یا لکھ دیتے ہیں ۔ ٹرمپ کا نیا جھگڑا ان کے سابق وزیر خارجہ رکس ٹیکرسن کے ساتھ ہوا ہے۔ ٹرمپ نے ٹیلرسن کے لئے لکھا کہ وہ بیوقوف اور ناسمجھ انسان نیز حد سے زیادہ کاہل ہیں ۔ ٹرمپ نے مزید لکھا کہ موجودہ وزیر خارجہ مائیک پمپؤ عظیم ذمہ داری ادا کر رہے ہیں اور مجھے ان پر فخر ہے تاہم ان کے سابق ہم منصب ریکس ٹیلرسن کے پاس سمجھ نہیں تھی، وہ بیوقوف اور نا سمجھ انسان تھے، مجھے ان سے نجات پانے میں کچھ تاخیر ہوئی۔ اب وزارت خارجہ میں بالکل مختلف حالات ہیں اور زبردست خوداعتمادی ہے ۔
ٹرمپ کے غصے کا سبب ریکس ٹیلرسن کا وہ انٹرویو ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو ٹرمپ نے ان سے غیر قانونی اقدامات کروانے چاہے اور وہ نظم و ضبط کے حامل شخص نہیں ہیں بلکہ موڈی انسان ہیں ۔
ٹیلرسن کے ساتھ ٹرمپ کی یہ جھڑپ، ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب رابرٹ مولر ٹرمپ کے خلاف تحقیقات میں مصروف ہیں اور ٹرمپ کے سر پر یہ تحقیقات کسی تلوار کے مانند لٹک رہی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ انہیں کلین چٹ مل گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ بھی جانتے ہیں کہ کلین چٹ نہیں ملی ہے بلکہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف ایک تحقیق مولر کر رہے ہیں جبکہ دوسری تحقیق بھی ان کے خلاف کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے ۔
نئے سال میں جب امریکی کانگریس کا آغاز ہوگا تو مجلس نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی کی اکثریت ہو چکی ہوگی اور ڈیموکریٹس کہہ چکے ہیں کہ وہ اس بات کی بھی تحقیق ضرور کریں گے کہ سعودی عرب سے ٹرمپ کے شخصی مالی تعلقات کس طرح کے ہیں؟
امریکا کے کچھ حلقوں میں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کا پوری طاقت سے دفاع کر رہے ہیں اور اس حوالے سے وہ سی آئی اے کی تحقیقات رپورٹ بھی نظر انداز کر رہے ہیں تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ٹرمپ کے ایسا کرنے کی وجہ کیا ہے؟
در ایں اثنا یہ بھی خبریں آنے لگی ہیں کہ سعودی عرب نے امریکا کے اندر مختلف لابیوں کو اپنے حق میں کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر پیسے خرچ کئے ہیں ۔ 26 ملین ڈالر کی رقم ایسی ہے الگ الگ افراد کو دی گئی ہے۔
ان مسائل کی وجہ سے ٹرمپ ذہنی طور پر کافی پریشان ہیں ۔ مخالف رہنماؤں کے حملے کا ٹرمپ کو پہلے ہی سامننا ہے جبکہ شروع سے ہی میڈیا سے ان کے تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں ۔ سی این این کے نامہ نگار کے ساتھ بحث کے بعد نامہ نگار کا وائٹ ہاوس کا لائسنس معطل کرنے کے مسئلے میں بھی ٹرمپ کو تب شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب عدالت نے وائٹ ہاوس کو حکم دیا کہ نامہ نگار کے وائٹ ہاوس میں داخلے کا لائسنس بحال کرے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حالت اب یہ ہو گئی ہے کہ دن رات بس حملے کرنا چاہتے ہیں ۔ کبھی ان کے نشانے پر میڈیا ہوتا ہے، کبھی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کا کوئی رہنما تو کبھی اپنی ہی پارٹی کے افراد بلکہ اپنے ہی قدیمی ساتھی ہوتے ہیں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ ابھی حال ہی میں سابق امریکی صدر جارج بش سینئر کے انتقال کے بعد ایک پروگرام میں گئے جس میں کئی سابق صدر بیٹھے ہوئے تھے۔ پہلی صف میں ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کی سیٹ تھی، اس صف میں سابق صدر باراک اوباما، بل کلنٹن اور جمی کارٹر بھی بیٹھے ہوئے تھے، جب ٹرمپ وہاں پہنچے تو صرف باراک اوباما اور میشل اوباما نے ٹرمپ اور میلانیا سے ہاتھ ملایا جبکہ بل کلنٹن، ہلیری کلنٹن اور جمی کارٹر نے ٹرمپ کی جانب دیکھا تک نہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کے بیانات اور ٹویٹ نے امریکی سیاسی محاذ پر کس طرح کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔