ملک میں صرف ایک قانونی صدر ہے، نکولس مادورو
وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو نے امریکہ کے حمایت یافتہ حزب اختلاف کے رہنما خوان گوآئیڈو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں صرف ایک قانونی صدر موجود ہے لہذا انہیں اپنے اقدامات پر نظرثانی کرنا چاہیے۔
اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں وینیزویلا کے قانونی صدر نکولس مادورو نے اپنے مخالف، خوان گوائیدو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں کشیدگی پھیلانے والے اقدامات سے باز آجائیں اور اس سے زیادہ ملک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ انہوں نے مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے مسٹر گوائیدو سے کہا کہ وہ اپنے اقدامات پر غور کریں اور مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرلیں۔ وینیزویلا کے صدر نے ملک میں قبل از وقت صدارتی انتخابات کے لیے یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی مہلت کو بھی سختی کے ساتھ مسترد کردیا جو پیر کے روز ختم ہونے والی ہے۔
صدر نکولس مادورو نے کہا کہ وہ ان لوگوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکیں گے جو دباؤ کے ذریعے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جرمنی، اسپین، برطانیہ، بیلجیئم، پرتگال، فرانس اور ہالینڈ جیسے یورپی ملکوں نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے، وینیزویلا کے منتخب اور قانونی صدر نکولس مادورو کو آٹھ روز کے اندر اندر دوبارہ صدارتی انتخابات کرانے کا راستہ ہموار کرنے کی مہلت دی تھی جسے وینیزویلا کی حکومت نے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے سختی کے ساتھ مسترد کردیا تھا۔
مذکورہ یورپی ملکوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر صدر مادورو نے ان کے مطالبے پر عمل نہ کیا تو وہ حزب اختلاف کے رہنما خوآن گوآئیدو کو وینیز ویلا کا عبوری صدر تسلیم کرلیں گے۔
دوسری جانب وینیزویلا کی نائب صدر ڈیلسی رود ریگز نے، امریکی صدر کی اس دھمکی کی مذمت کی ہے کہ وینیزویلا میں فوجی مداخلت کا آپشن بھی کھلا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی نگاہیں وینیزویلا کے قدرتی ذخائر پر جمی ہوئیں اور فوجی مداخلت کی بات سے امریکیوں کی بدنیتی صاف دکھائی دیتی ہے۔ادھر اقوام متحدہ میں وینیزویلا کے سفیر خورخے والرو نے کہا ہے کہ میرے لاکھوں ہم وطن اپنے ملک میں امریکی مداخلت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم ایسی استقامت دکھائیں گے کہ امریکیوں کو جنگ ویتنام یاد آجائے گی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اپنے ایک انٹرویو میں وینیزویلا میں صدر مادورو کی منتخب اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فوجی مداخلت کے امکان کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ اسے ایک آپشن قرار دیا تھا -