ایران کو بھول جاؤ، امریکا کے لئے ایک اور محاذ تیار + مقالہ
اس بات کے متعدد اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا اور چین، جنوبی چین سمندری علاقے میں ممکنہ تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ جیسے جیسے اس جنگ میں پوشیدہ جذبات سامنے آ رہے ہیں اس کی شدت مزید بڑھتی جا رہی ہے ۔
دنیا کی نظریں تو خلیج فارس میں امریکا اور ایران کے درمیان تصادم کے امکانات پر ٹکی ہوئی ہیں لیکن مغربی میڈیا اپنی آسانی کی وجہ سے جنوبی چین میں تصادم کے امکان کو نظر انداز کر رہا ہے۔
حال ہی کی بات ہے کہ جاپان، امریکا، ہندوستان اور فلپائن کے جنگی بیڑے مشترکہ فوجی مشق کے تحت جنوبی چین سمندر سے گزرے جس کا مقصد علاقے میں بڑھتے چین کے اثر و رسوخ کو کنٹرول کرنا تھا ۔ جب سے یہ ہوا ہے روڈریگا ڈیوٹرٹ کی حکومت کے دور میں چین سے شروع ہونے والی فلپائن دوستی منصوبے کے مطابق آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے ۔
ڈیوٹرٹ نے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک کو امریکا سے دور کرکے چین کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تاہم جب فلپائن نے ہندوستان، جاپان اور امریکا کے ساتھ جنوبی چین سمندر میں مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت کی تو اس کا مطلب واضح ہے کہ فلپائن نے آگے کا راستہ جو منتخب کیا ہے وہ الگ ہے ۔
امریکی بحریہ کے آپریشن چیف ایڈمیرل جان رچرڈسن نے تو یہ بیان بھی دے دیا کہ وہ آسٹریلیا اور انڈونیشیا کی بحری فوج کو بھی جنوبی چین سمندر میں تعینات دیکھنا چاہتے ہیں ۔
چین ان سرگرمیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ حکومتی اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا کہ چین کو چاہئے کہ اپنی بحریہ کو اتنا وسیع اور مضبوط کرے کہ واشنگٹن، جنوبی چین سمندر میں آزادی سے نہ گھوم سکے ۔ جب چینی بحریہ بھرپور طاقت کے ساتھ مضبوط رہے گی تو امریکی جنگی بیڑوں کی ہمت نہیں پڑے گی کہ وہ اس علاقے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں ۔
چین خود بھی اس طرح کی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے جن سے تصادم کا امکان بڑھ گیا ہے ۔ گزشتہ مہینے چین نے تائیوان کی جنوبی اور شمالی سرحدوں سے ملنے والے علاقوں میں متعدد فوجی مشقیں انجام دی ہیں ۔
امریکا میں یہ موقف پوری طاقت کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ ایران کو بھول جاؤ! امریکا کے لئے قومی سیکورٹی کا مسئلہ تب سنجیدہ ہو جائے کا جب اس علاقے میں چین کی فوجی طاقت بڑھ جائے گی اور وہ اس پورے جیوپولٹیکل علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے گا ۔ اس علاقے سے کھربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جو پوری دنیا کی شپنگ کا ایک تہائی حصہ ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس اہم مسئلے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، شاید تب سب کی آنکھیں کھلیں گی جب بات وہاں پہنچ جائے گی جہاں سے واپس آنا بہت سخت ہوگا ۔
٭رشا ٹو ڈے کی ویب سایٹ پر شائع داریوش طہماسبی کے مقالے کا خلاصہ٭