ایران محتاط رہے، ٹرمپ کی ہرزہ سرائی
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پچھلے چند روز کے دوران متعدد بار تہران کو خبردار کیا ہے وہ احتیاط سے کام لے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے بے بنیاد الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ امریکہ، آبنائے ہرمز میں بحری جہازوں کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے عالمی اتحاد کے قیام کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ کے ہلڑباز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ بہتر ہو گا کہ ایران بہت احتیاط سے کام لے کیونکہ وہ خطرناک میدان میں قدم رکھ رہا ہے۔
ٹرمپ نے چار، پانچ، آٹھ، اور نو جولائی کو بھی کم سے کم چار بار اس مضمون کا جملہ کہا تھا کہ" ایران محتاط رہے۔"
تجزیہ نگار حضرات ٹرمپ کے اس لب و لہجے اور الفاظ کے چناؤ کو ان کی دھمکی آمیز اسٹریٹیجی کا حصہ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد فریق مقابل کو امریکی شرائط ماننے پر مجبور کرنا ہے۔
ٹرمپ نے ایران کی سمندری حدود پر جارحیت کرنے والے امریکی جاسوس طیارہ مار گرائے جانے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور پھر یہاں تک کہا گیا کہ وہ ایران کے خلاف حملے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن پھر ٹرمپ پسپائی اختیار کرتے ہوئے، اس اقدام سے دستبردار بھی ہو گئے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے بے بنیاد الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ امریکہ، آبنائے ہرمز میں بحری جہازوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے عالمی اتحاد کے قیام کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے اس نام نہاد عالمی اتحاد کے حامی ملکوں کی تعداد اور نام کا ذکر کیے بغیر دعوی کیا کہ کافی زیادہ ملکوں نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔
پومپیو نے یہ بھی دعوی کیا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ اتحاد نہ صرف امریکہ کو بلکہ ان ملکوں کے لیے بھی مفید ہو گا جو امریکہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ آبنائے ہرمز میں نقل و حرکت کرتے ہیں تاکہ اس آبی گزرگاہ میں آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں نے یہ دعوی ایسی حالت میں کیا جب امریکی ایوان نمائندگان نے جمعے کے روز ایک بل منظور کیا ہے جس میں ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے کے لیے ٹرمپ کے اختیارات کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایوان کے دو سو اکیاون ارکان نے اس بل کی حمایت کی جبکہ ایک سو ستر نے اس کی مخالفت کی۔ ایوان نمائندگان کے متعدد ریپبلکن ارکان نے بھی بل کے حق میں ووٹ دیئے۔
اس بل کے حامیوں کو ایوان سے منظوری کی پوری امید ہے۔ منظوری کی صورت میں دونوں بلوں کو سن دو ہزار انیس کے فوجی بجٹ میں بطور ضمیمہ شامل کیا جائے گا۔
ایوان نمائندگان سے اس بل کی منظوری سے امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں اور رائے عامہ کی جانب کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کی جنگ پسندی کے حوالے سے تشویش کی نشاندہی ہوتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جنگ پسندانہ اور دھمکی آمیز پالیسیوں اور اقدامات پر خود امریکی سیاستدانوں اور یورپی ممالک کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران بارہا یہ تاکید کرچکا ہے کہ امریکہ کی کسی بھی قسم کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دیا جائے گا۔