ایران میں کرونا وائرس اور ذرائع ابلاغ کا کھیل !!
یہ کیسے باور کیا جائے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکی جہاں سیاحوں کی ریل پیل رہتی ہے اور افغانستان و عراق جیسے ممالک میں جہاں امریکی لشکر کشی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صحت عامہ کے مسائل کے پیش نظر، بڑی تعداد میں لوگ کرونا وائرس میں مبتلا نہ ہوئے ہوں!!!
حکومت ایران کی جانب سے اپنے چند شہریوں کے کرونا میں مبتلا ہونے اور دو افراد کے فوت ہوجانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد بیرونی ذرائع ابلاغ ، ایران مخالف ماحول بنانے اور ترکی، عراق، پاکستان اور افغانستان جیسے ملکوں کی جانب سے ایران سے ملنے والی سرحدوں کی بندش سے متعلق خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے، ہمسایہ ملکوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو ایران سے ربط دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے ممالک روزانہ چینی شہریوں سمیت دنیا بھر سے آنے والے ہزاروں سیاحوں کی میزبانی کرتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ کرونا وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے کی خبریں سامنے آنے سے پہلے ہی ان ممالک کو اس وائرس کا سامنا کرنا پڑا ہو لیکن دونوں ممالک معاملے کو چھپا کر اپنی معیشت اور سیاحت کی صنعت پر اس کے منفی اثرات روکنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
دوسری بات عراق، افغانستان اور پاکستان کی ہے جہاں بڑی تعداد میں چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ساتھ ان ممالک میں صحت عامہ کے نظام اور طبی خدمات کی فراہمی میں پائے جانے والے نقائص کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خاص طور سے افغانستان اورعراق ایسے ممالک ہیں جہاں امریکہ کی لشکر کشی نے بنیادی ڈھانچے کو برح طرح تباہ اور صحت عامہ کے نظام کو نابودی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ ممالک کے لوگوں کی بڑی تعداد کرونا وائرس میں مبتلا نہ ہوئی ہو، بنا برایں عالمی ذرائع ابلاغ میں کرونا وائرس کے قم سے پھیلاؤ کے شور شرابے کا مقصد پرائی آگ پر روٹی تھاپنے اور ہمسایہ ملکوں کے عوام کو ایران سے بدظن کرنے کی کوشش کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جن ممالک کے نام لیے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ملک صحت عامہ اور علاج معالجے کی سہولتوں کے لحاظ سے ایران کے پائے کا نہیں ہے۔ بلکہ مذکورہ ممالک کے بہت سے شہری علاج معالجے کے لیے ایران ہی کا رخ کرتے ہیں۔ بنا برایں متحدہ عرب امارات اور ترکی میں کرونا وائرس کے کیسوں کو جان بوجھ کر چھپایا اور معاملے کی سنگینی کو کم کرکے دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رہی عراق اور افغانستان کی بات ، تو جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ان ملکوں میں امریکہ کی لشکر کشی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے پیش نظر کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تشخیص کرنا کہیں زیادہ دشوار ہے اور بعد میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان ملکوں میں بھی کرونا وائرس پھیلنے کی خبریں سامنا لائی جائیں گی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس سرحدوں میں محدود نہیں رہا اور اعلی سطح کے معیاری صحت کا نظام رکھنے والے یورپی ممالک میں بھی کرونا وائرس کے درجنوں کیس سامنے آچکے ہیں حتی صرف اٹلی جیسے ملک میں کرونا کے دوسو کیسوں کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے چند افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور سعودی عرب سے وابستہ ذرائع ابلاغ کرونا وائرس کے معاملے کو سیاسی رنگ دیکر خطے کی قوموں کو ایک دوسرے سے بدظن کرنا چاہتے ہیں بنا برایں علاقے کی رائے عامہ کو اس قسم کی مذموم کوششوں اور مکروہ سازشوں سے پوری طرح ہشیار رہنا ہوگا۔
بشکریہ:
تلخیص و ترجمہ: عظیم سبزواری
آئی آر آئی بی نیوز ایجنسی