نسل پرستی کے خلاف پورے امریکا میں مظاہرے، عالمی سطح پر مذمتوں کا سلسلہ جاری
پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری کے قتل کے خلاف امریکہ بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور لوگ پولیس کے نسل پرستانہ اور تشدد آمیز رویئے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ریاست منے سوٹا کے شہر مینیاپولس میں امریکی پولیس اہلکار کے ہاتھوں گلا دبا کر سیاہ فام امریکی شہری کے قتل کو چند روز گزر جانے کے باوجود مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں اور لوگوں میں پولیس کے تئیں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
مینیاپولس میں ہونے والے ایک بڑے مظاہرے میں شریک لوگ" میرا دم گھٹ رہا رہے" اور" سیاہ فاموں کی جان بھی قیمتی ہے" جیسے نعرے لگارہے تھے۔ ریاست لوئیزیانا کے شہر نیو اورلیانز، وسکانسن کے شہر ملواکی اور کلوراڈو کے شہر ڈینور سے بھی امریکی پولیس کی بربریت کے خلاف بڑے بڑے مظاہروں کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔
شہری حقوق اور نسل پرستی کے مخالفین کی بڑی تعداد نے نیویارک میں بھی ایسا ہی ایک مظاہرہ کیا ہے جس میں سول سوسائٹی کے مختلف رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے نسل پرستی کے حوالے سے ملک کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے۔
اسی دوران اطلاعات ہیں کہ ڈیٹرائٹ سٹی میں ہونے والے ایک بڑے مظاہرے میں بھی ہزاروں امریکی شہری ہوئے مگر اس مظاہرے کے دوران ایک شخص کے مارے جانے کی بھی خبر ہے۔
امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہری کے بہیمانہ قتل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے رنگین فام لوگوں کے ساتھ یہ سلوک معمول بن چکا ہے۔
آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے نامزد ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے بھی ملک میں نسل پرستی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ، ہم اس معاملے پر خاموش نہیں رہ سکتے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مندوب دی متری پولیانسکی نے اس واقعے پر ردعمل دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی پولیس سیاہ فام شہری کے قتل کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال اور انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔
اقوام متحدہ میں چینی مندوب ژانگ ژو نے بھی سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس کے دوران امریکہ میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میشل بیشلے نے بھی حکومت امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افریقی نژاد امریکی شہریوں کے خلاف تعصب کی روک تھام کے لیے لازمی تدابیر اختیار کرے۔
اقوام متحدہ نے بھی ایک بیان جاری کرکے پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی شہری کے قتل کے واقعے کو ایک سانحہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کے پیغام کو ری ٹوئٹ کرنے پر وائٹ ہاؤس کو انتباہ جاری کر دیا ہے۔ڈونلد ٹرمپ نے سیاہ فام امریکی شہری کے قتل کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے مظاہرین کو غنڈے بدمعاش قرار دیا تھا۔ بعدازاں وائٹ ہاوس کے سوشل میڈیا مینیجر ڈین اسکیوینو نے ٹوئٹر کے انتباہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوشل نیٹ ورک خرافات سے بھرا پڑا ہے۔
درایں اثنا روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے ٹرمپ کے دو مزید ٹوئٹ شائع کیے ہیں جنہیں اخبار نے تشدد کی دعوت سے تعبیر کیا ہے۔ ان میں سے ایک ٹوئٹ میں ٹرمپ نے لکھا ہے کہ"اچھے ڈیموکریٹ، وہ تو مر چکے ہیں" اور دوسرے میں لکھا ہے کہ" لوٹ مار ہو گی تو فائرنگ بھی ہوگی۔"
ادھر امریکہ میں جنگ مخالف یونین کے کنوینر برایان بیکر نے بھی کہا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی شہریوں کو تشدد کی دعوت دے کر گناہ کیا ہے۔
اس درمیان امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے ملٹری پولیس فورس کے دستوں کو مینیا پولس سٹی بھیجنے کی غرض سے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایک سفید فام امریکی پولیس اہلکار نے گزشتہ ہفتے مینیاپولس شہر میں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کو انتہائی غیر انسانی طریقے سے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی فوٹیج سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہونے کے بعد پورے امریکہ میں مظاہرے کیے جار ہے ہیں اور ریاستی حکومتوں نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے کئی شہروں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔
انسانی اور شہری حقوق کا دفاع کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سیاہ فاموں اور دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پولیس کے تشدد آمیز رویئے کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔