امریکا میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے اور پولیس کا انتقام
امریکا میں سیاہ فام جوان کے قتل کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
امریکی ریاست سیاٹل میں امریکا نے پر امن مظاہرہ کر رہے لوگوں پر آنسو گیس کے گولوں کی بارش کر دی۔
امریکہ ہمیشہ ہی آزادی بیان اور انسانی حقوق کا کھوکلا نعرہ لگا کر دنیا کے مختلف ملکوں پر نشانہ سادھتا رہا ہے مگر آج امریکی عوام پورے ملک میں میڈیا رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کی ہونے والی سرکوبی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
مریکی پولیس کے ہاتھوں امریکہ میں روزانہ چار شہریوں کا دوران حراست قتل کر دیا جاتا ہے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق ایسی حالت میں کہ جب سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کے بہیمانہ قتل پر پورے امریکہ میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے امریکی پولیس سبھی ترقی پذیر ملکوں سے بھی آگے بڑھ کر امریکی شہریوں پر فائرنگ اور انہیں جیل میں بند کرنے کے علاوہ انہیں گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔
اس درمیان امریکی پولیس نے ملک میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے نامہ نگاروں تک کو فائرنگ کا نشانہ بنایا اور انہیں گرفتار کیا ہے۔ اخبار گارڈین نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی پولیس نے نسل پرستی کے خلاف کئے جانے والے مظاہرے کے دوران ایک فوٹو گرافر کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا جس میں وہ شدید طور پر زخمی ہو گیا اور اس کی آنکھ کی روشنی چلی گئی۔