سعودی دارالحکومت ریاض کا یہ رخ بھی دیکھئے!
قبیلۂ آل سعود کو نہ تو عالمی پابندیوں کا سامنا ہے اور نہ عالمی سامراج کے ساتھ اسکی کوئی دشمنی ہے اور نہ ہی اسکے پاس پیسے کی کوئی کمی ہے اور اتفاق کی بات یہ کہ اسکے پاس تیل کے قدرتی ذخائر بڑی مقدار میں موجود ہیں اور وہ پیٹرولیئم کی مصنوعات بنانے والا دنیا کا ایک اہم ملک شمار ہوتا ہے۔
ایک طرف قبیلۂ آل سعود کی شاہانہ ٹھاٹ باٹ، پیٹرو ڈالر پر ناز کرتے اور پلتے پھولتے سعودی شہزادے، اپنے اقتدار کی حفاظت کی خاطر اسلحے کے گودام بھرنے کے لئے امریکہ کے ساتھ آل سعود کے دسیوں ارب ڈالر کے معاہدے اور دوسری طرف سرزمین حجاز میں افسوسناک حد تک فقر و غربت اور ناداری کا بول بالا۔
آل سعودی کے نمکخوار ذرائع ابلاغ کی نگاہیں اور کیمرے عام طور پر سعودی عرب کی ایسی تصاویر پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ سرزمین حرمین شریفین کے خدمتگزاروں کی بدولت مدینۂ فاضلہ ہے، یعنی وہی جس کی آرزو ساری دنیا کو ہوتی ہے۔
مگر حقائق کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں۔ سرزمین حجاز میں جابجا چھوٹے بڑے شہروں اور قریوں حتیٰ دارالحکومت ریاض میں شاہی درباروں اور محلوں سے چند سو میٹر کے فاصلے پر فقر و فلاکت اور ناداری کے ایسے افسوسناک اور ہولناک مناظر بکثرت موجود ہیں جن کو آل سعود کی کلمہ گو میڈیا دیکھنے اور اسکی تصویر کشی کرنے سے قاصر ہے۔
پیش خدمت یہ ویڈیو ایک ٹیلیگرام چینل ہاون میڈیا سے لی گئی ہے جس میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ سعودی دارالحکومت ریاض میں شاہی محلوں سے کچھ ہی فاصلے پر لوگ کس طرح غربت و افلاس کا شکار ہیں، نہ اُن کے پاس رہنے کو مناسب مکان ہیں اور نہ گلی کوچوں اور محلوں میں شاہی حکومت کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں۔ مکانات ایسے کہ بقول مقامی لوگوں کے کہ گھر میں جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کب وہ ہمارے سر پر گر پڑیں۔ جابجا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے مکانات نظر آتے ہیں اور بعض کے یہاں تو نوبت یہ آگئی ہے کہ مکانات کے محفوظ نہ ہونے کے سبب انہوں نے لوہے کے بڑے بڑے باکس بنوا کر اس میں اپنا ضروری اور قیمتی سامان رکھنا شروع کر دیا ہے۔ محلے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی لق و دق صحرا کے بیچ ایک دور افتادہ کوئی دیہات ہے جہاں سہولیات کی فراہمی قدرے دشوار ہوا کرتی ہے۔
مزید تفصیلات آپ کی نظروں پر چھوڑیں...!