Feb ۰۵, ۲۰۲۱ ۱۹:۰۵ Asia/Tehran
  •  جو بائیڈن کے وعدے اور دعوے

امریکی صدر جو بائیڈن نے دعوی کیا ہے کہ ان کا ملک ایک بار پھر سفارت کاری کے راستے پر واپس آگیا ہے۔

اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات بیان کرنے کے لیے وزارت خارجہ کا دورے پر گئے امریکی صدر نے دعوی کیا کہ آج کے بعد سے امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے راستے پر لوٹ آیا ہے اور ہم استبدادی نظاموں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں گے۔

بعد ازاں امریکی صدر نے موسمیاتی تبدیلیوں، جنگ یمن، میانمار میں بغاوت نیز روس چین اور یورپ کے ساتھ تعلقات سمیت خارجہ پالیسی کے مختلف معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جو بائیڈن نے پچھلے چند برسوں کے دوران امریکی حمایت کی چھتری تلے، جارح سعودی اتحاد کے ہاتھوں یمن میں رونما ہونے والے انسانی المیوں کا اعتراف اور دعوی کیا کہ ان کی حکومت جنگ یمن کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششوں کا آغاز کرنے والی ہے۔

جو بائیڈن نے بعد ازاں روس اور چین کو نشانہ بنایا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ امریکہ بقول ان کے روس اور چین کی تسلط پسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گا۔ انہوں نے چین کو امریکہ کا اہم ترین حریف قرار دیتے ہوئے امریکی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ کاپی رائٹ کے معاملات  اور اقتصادی رقابت سمیت تمام میدانوں میں چین کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔

امریکی صدر نے کہا کہ وہ روس کی نگرانی بڑھائیں گے اور امریکہ کے حیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ذرہ برابر پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔

 کم سے کم نصف صدی کی امریکی سفارت کاری کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ واشنگٹن کی خارجہ پالیسی شروع ہی سے چند ایک دائمی اور تبدیل نہ ہونے والے عناصر کے گرد گھومتی ہے اور حکومت کی تبدیلی کے باوجود خارجہ پالیسی کے یہ عناصر تبدیل نہیں ہوتے۔

عالمی نظام پر بالادستی قائم رکھنا، امریکی کمپنیوں کے اقتصادی مفادات کا تحفظ، امریکی اقدار کی ترویج، کٹھ پتلی حکومتوں کی حمایت اور حریف حکومتوں کے ساتھ محاذ آرائی وغیرہ جیسے وہ عناصر ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی کا اٹوٹ حصہ شمار ہوتے ہیں۔

سفارت کاری اور جنگ کا بیک وقت استعمال بھی امریکی کی ایک دائمی پالیسی رہی ہے۔

ڈیموکریٹ سے تعلق رکھنے والی اوباما انتظامیہ اور ری پبلکن سے تعلق رکھنے والی ٹرمپ انتظامیہ کا جائزہ لینے سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وائٹ ہاوس  نے اوباما کے دور میں جنگ کے آپشن کو ترک نہیں کیا تھا جبکہ ٹرمپ نے بھی وائٹ میں سفارت کاری کو ایک طرف نہیں رکھا تھا۔ لہذا موجودہ صدر جوبائیڈن کا یہ کہنا کہ، امریکہ سفارت کاری کی جانب واپس آ گیا ہے، یہ محض ایک سیاسی داؤ ہے اور اس کا مطلب جنگ کی پالیسی ترک کرنا نہیں ہے۔

 

ٹیگس