جمال خاشقجی کے قتل میں امریکہ بھی ملوث
سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امریکہ کے بھی ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔
امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں نے امریکہ میں پیراملٹری ٹریننگ حاصل کی، سعودی رائل گارڈز کی تربیت کا لائسنس پہلی مرتبہ 2014 ء میں جاری کیا گیا تھا۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 4 سعودی شہریوں نے امریکی محکمہ خارجہ کی منظوری پانے والے معاہدے کے تحت قتل سے ایک سال قبل پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی تھی۔
امریکی اخبار کی رپورٹ پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ قانون کے تحت محکمہ میڈیا رپورٹنگ میں الزام عائد کردہ کسی بھی لائسنس یافتہ دفاعی برآمدی لائسنسنگ سرگرمی پر تبصرہ نہیں کرسکتا۔
پرائس نے دعوی کیا کہ سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی "قانون کی حکمرانی کو ترجیح دے گی اور انسانی حقوق کا احترام کرے گی۔
انہوں نے کہاکہ یہ تربیت سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں شروع ہوئی اور ٹرمپ کے دور کے پہلے سال تک جاری رہی۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل سعودی دارالحکومت ریاض کی کریمنل عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 8 ملزمان کو قید کی سزا سنائی تھی۔
آٹھوں ملزمان کو مجموعی طور پر 124 سال قید کی سزائیں سنائی گئی تھی جن میں پانچ ملزمان کو 20، 20 سال قید، جبکہ تین ملزمان کو 7 سے 10 سال تک کی قید کی سزائیں سنائی گئی۔ سزائیں سنائے جانے اور لواحقین کی دستبرداری کے بعد مقدمہ خارج کر دیا گیا تھا۔
جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 8 ملزمان کو قید کی سزائیں ایسے وقت میں سنائی گئیں کہ جب انسانی حقوق کے اکثر عالمی حلقے سعودی ولیعہد بن سلمان اور ان کے دو قریبی دوستوں سعود القحطانی اور احمد عسیری کو جمال خاشقجی کے قتل کا اصل ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا اور حتی وہ ایک بار بھی عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔
اس سے قبل بن سلمان نے امریکی ٹیلی ویژن چینل بی بی ایس سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی عناصر کے توسط سے جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
متعدد عالمی تنظیموں نے بارہا صحافی جمال خاشقجی قتل کیس کی آزادانہ تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ کیا، تاہم قتل کے اصل ملزم آل سعود نے اسے مسترد کرتے ہوئے خود ہی ایک عدالت سجا کر ملزموں کے خلاف نمائشی کارروائی شروع کی۔
یاد رہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018ء میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے کے اندر نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، مقدمے میں نامزد تمام ملزمان سعودی شہری ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ابھی کچھ کام ایسے باقی رہ گئے جو امریکی ایما پر کئے جانے باقی ہیں جن کی انجام دہی کے لئے آل سعود کو بہترین آپشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔