Jul ۲۹, ۲۰۲۲ ۱۴:۲۴ Asia/Tehran
  • نیٹو بحیرہ بالٹک پر تسلط قائم کرنے کی کوشش میں ہے، روس

روس کی قومی سلامتی کونسل کے نائـب سربراہ نے کہا ہے کہ نیٹو بحیرہ بالٹک پر تسلط قائم کرنے کی کوشش میں ہے اور روس اس سلسلے میں مناسب جواب دے گا۔

روسی خبر رساں ایجنسی ایتار تاس کے مطابق روس کی قومی سلامتی کونسل کے نائـب سربراہ دیمتری مدودیف نے جمعرات کی رات ایک بیان میں کہا کہ نیٹو میں سوئیڈن اور فنلینڈ کی شمولیت بالٹک کے علاقے میں سیکورٹی کی صورت حال مزید بحرانی بننے کا باعث بنے گی ۔ انھوں نے کہا کہ نیٹو میں فن لینڈ اور سویڈن کی شمولیت سے یہ علاقہ ایک ایسے علاقے میں تبدیل ہو جائے گا کہ جس پر نیٹو کا تسلط ہوگا۔

دیمتری مدودیف نے کہا کہ روس اپنے مفادات کا دفاع اور نیٹو میں سوئیڈن اور فنلینڈ کی شمولیت کی صورت میں اپنی سیکورٹی کو یقینی بنانے کی توانائی رکھتا ہے۔ انہوں نے جو روس کے سابق صدر اور سابق وزیراعظم بھی ہیں، کہا کہ اس معاملے میں روس کا جواب مناسب ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ روس اپنے مفادات کا دفاع اور نیٹو میں سوئیڈن اور فنلینڈ کی شمولیت کی صورت میں اپنی سیکورٹی نیز اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی پوری توانائی رکھتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوئیڈن اور فنلینڈ کو چاہئے کہ نیٹو میں شمولیت کے بارے میں اپنے فیصلے اور پالیسی پر نظر ثانی اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں ۔

یاد رہے کہ نیٹو نے انتیس جون کو سوئیڈن اور فنلینڈ کواس تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی سینیٹ نے اتفاق آرا سے ایک قرارداد کی منظوری دی ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے کہا گیا ہے کہ روس کو چیچنیا، جارجیہ، شام اور یوکرین میں اس کے اقدامات کی بنا پر دہشت گردی کا حامی ملک قرار دیں ۔

قابل ذکر ہے کہ امریکا میں کسی بھی ملک کو دہشت گردی کے حامی ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اختیار وزارت خارجہ کے پاس ہے۔

باخبر مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی سینیٹ میں اس قرارداد کی منظوری کا مقصد بائیڈن انتظامیہ پراس بات کا دباؤ بڑھانا ہے کہ وہ روس کو دہشت گردی کا حامی ملک قرار دے ۔ امریکی سینیٹ کا اقدام وہی چیز ہے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی جنگ کے دوران جس کا بارہا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا اور نیٹو کے اشتعال انگیز اقدامات میں شدت آنے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتین نے گزشتہ اکیس فروری کو دونباس کے علاقے میں دونیسک اور لوہانسک کی خود مختاری کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ روس نے اس کے تین دن بعد یعنی چوبیس فروری کو یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کردیا ۔ جبکہ یہ جنگ اب پانچویں مہینے میں چل رہی ہے۔

واضح رہے کہ یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد مغربی ملکوں نے اس جنگ میں براہ راست شمولیت سے تو گریز کیا تاہم وہ یوکرین کو مختلف قسم کے ہتھیار ارسال کرتے آئے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے یورپ و امریکہ کی جانب سے روس کے خلاف مختلف قسم کی سخت ترین پابندیاں عائد کی گئی ہیں تاکہ روس پر اقتصادی و سیاسی دباؤ ڈالا جا سکے۔

ٹیگس