Dec ۲۳, ۲۰۲۲ ۱۳:۰۸ Asia/Tehran
  • برطانیہ میں خواتین پرتشدد

برطانیہ ان مغربی ممالک میں سر فہرست ہے جو خواتین کے ساتھ تشدد کے خلاف مہم کے دعویدار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین سب سے زیادہ مغربی دنیا بالخصوص برطانیہ میں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ۔

سحر نیوز/ دنیا: برطانیہ میں انجام پانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین سب سے زیادہ زیادتی اور تشدد کا نشانہ انگلینڈ میں بنائی جاتی ہیں ۔ برطانیہ کی لینکسٹر یونیورسٹی کی اس تحقیق کے مطابق فیفا ورلڈکپ دو ہزار بائیس کے دوران انگلینڈ میں خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اڑتیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ورلڈکپ شروع ہونے کے تقریبا دس گھنٹے بعد خواتین کے خلاف گھریلو تشدد اوج پر پہنچ گیا یہاں تک کہ بہت سی خواتین گھریلو تشدد میں زخمی ہوگئیں اور بعض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں  ۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ گزشتہ ورلڈکپ کے دوران برطانیہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے قومی ادارے نے پورے لندن میں ایسے پوسٹر چسپاں کئے تھے جن  میں برطانیہ کے میچ کے بعد خواتین کے خلاف تشدد میں کمی کی اپیل کی گئی تھی ۔ان پوسٹروں میں ایک خاتون کے خون آلود چہرہ کے ساتھ یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ اگر انگلینڈ کی ٹیم ہار گئی تو وہ ہار جائے گی ۔

فٹبال میچ کےدوران تشدد کا نشانہ بننے والی ایک برطانوی خاتون کہتی ہے کہ فٹبال کو بہت اچھا کھیل کہا جاتا ہے لیکن میرے لئے فٹبال کا مطلب مار کھانا اور جنسی تشدد کا نشانہ بننا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ انگلینڈ کے فٹبال کلب کے میچوں کے دوران اور قومی فٹبال ٹیم کی شکست کے بعد اتنی زیادہ بار مار کھا چکی ہے کہ ان کی تعداد اس کو یاد نہیں رہی ۔

برطانوی خواتین حتی کورونا وبا کے پھیلاؤ کے دوران بھی تشدد سے محفوظ نہیں رہیں ۔ قرنطینہ کے زمانے میں برطانوی خواتین کورونا کے ساتھ ہی انواع و اقسام کے گھریلو تشدد سے بھی حالت جنگ میں تھیں ۔ برطانیہ کے ایک خیراتی ادارے رفیوج کی رپورٹ کے مطابق اپریل دو ہزار بائیس میں پورے انگلینڈ میں کورونا قرنطینہ کا اعلان کئے جانے کے بعد اس کے پاس آنے والی ایسی ٹیلی فونی درخواستوں میں سات سو فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا جن میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین نے مدد کی درخواست کی تھی ۔

تشدد برطانوی خواتین کو درپیش مستقل مسئلہ ہے اور جو بھی خوشی یا غم کا موقع ہو، انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتی کرسمس کےموقع پر بھی ان کی مشکلات اور انہیں دی جانے والی اذیتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کرسمس یورپی عوام کے لئے خوشی کا موقع ہوتا ہے ہر جگہ جشن کا سماں رہتا ہے لیکن یہ موقع بھی انگلینڈ کی خواتین کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے۔ فادر نوئل سب کے لئے خوشیاں لیکن انگلینڈ کی خواتین کے لئے تشدد، زخم ، تشدد اور غم و غصہ لاتے ہیں ۔

برطانیہ نیشنل ہیلتھ سینٹر کے مطابق خواتین کے ساتھ تشدد کا سلسلہ حتی ان کے حاملہ ہونے کے بعد بھی نہیں رکتا بلکہ اس میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے ۔ ایک برطانوی خاتون رامونا، جو پندرہ سال کی عمر میں اپنے شوہر کے تشدد کا نشانہ بنی ، کہتی ہے کہ گویا میں یرغمال بنالی گئی تھی ، بھاگ جانے کی کوشش کی لیکن اس کی ماں نے دروازے میں تالا لگا دیا تھا۔ مار سے میر چہرے پر نیل پڑگیا تھا جس کو میں میک اپ سے چھپاتی تھی ۔ رامونا جیسی لا تعدد برطانوی خواتین ہیں جو تشدد سے نجات نہیں پاتیں اور اگر کسی طرح بچ بھی جائیں تو ان کی نفسیاتی اور ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہوتی ہے اور زیادہ تر منشیات کے گروہوں کا شکار بن جاتی ہیں۔

برطانیہ کی ایک خاتون وکیل وکٹوریا کینن کہتی ہیں کہ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی زیادہ تر خواتین رپورٹ نہیں کرتیں کیونکہ اس کے نتائج سے ڈرتی ہیں ۔ پولیس بھی ان خواتین کو تشدد سے بچانے پر زیادہ توجہ نہیں دیتی اور کہتی ہے کہ یہ گھریلو معاملات ہیں، ان میں مداخلت نہیں کرے گی ۔

انگلینڈ میں خواتین کے ساتھ تشدد کا مسئلہ آج اور کل کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت پرانا مسئلہ ہے جس کو ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ہے ۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو ابتک لاتعداد انگلش خواتین کی زندگیاں لے چکا ہے۔

ٹیگس