نسل پرستی کے بارے میں مغرب کی منافقت کا پردہ فاش
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی اور نسل پرستی کے واقعے نے ایک بار پھر سفید فام دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کے حوالے سے پولیس اور مغربی میڈیا کی منافقت کو پوری طرح واضح کردیا ہے۔
سحر نیوز/ دنیا: پیرس کے کرد علاقے پر حالیہ حملے کے الزام میں گرفتار فرانسیسی شہری نے اس کیس کے خصوصی تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے یہ حملہ اس لیے کیا کہ اسے غیر ملکیوں سے نفرت ہے۔ یہ انسٹھ سالہ شخص جمعہ تئیس دسمبر کو پیرس کے نواحی علاقے میں قائم کرد ثقافتی مرکز اور اس سے متصل کافی شاپ پر حملے کے الزام میں زیر حراست ہے جس کے دوران دو مرد اور ایک عورت ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ شخص، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے بارہ دسمبر کو جیل سےرہا کیا گیا ہے، ایک ریٹائرڈ ٹرین ڈرائیور ہے اور اس سے پہلے بھی تارکین وطن پر چاقو سے حملہ کر چکا ہے ۔ اس نے گزشتہ سال ایک پناہ گزین کیمپ پر بھی نسل پرستانہ حملہ کیا تھا جس کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا تھا لیکن فرانسیسی حکام نے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور مقدمہ چلانے کے بجائے اسے جیل سے رہا کردیا جس کے بعد اس نے کرد ثقافتی مرکز پر حملے کا ارتکاب کیا ۔
پیرس میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے میں تین کرد تارکین وطن کی ہلاکت کے واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کے سیکورٹی اور انتظامی ادارے سفید فام دہشت گردوں کے بارے میں مکمل اور واضح معلومات فراہم کرنے سے کیوں گریزاں ہیں ۔ مغربی میڈیا بھی عموماً ایسے واقعات کو ہلکے پھلکے انداز میں کور کرتا ہے یا بالکل نظر انداز کردیتا ہے جب کہ اس طرح کی حرکت اگر تارکین وطن میں سے کوئی بالخصوص مسلمان انجام دے تو مغربی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اور ایسے واقعات کو اسلام اور تارکین وطن کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
لندن میں مقیم ایک صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار سید محسن عباس اس طرح کے واقعات کے حوالے سے فرانسیسی پولیس کے رویئے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ پولیس نے اب نسل پرستی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں پولیس اور انسداد دہشت گردی کے ادارے ہمیشہ سفید فام دہشت گردوں کے نام اور ان کی درست شناخت کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ۔ وہ لوگوں کو یہ بتانا پسند کرتے ہیں کہ سفید فام دہشت گرد ذہنی امراض کا شکار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ اور مجموعی طور پوری مغربی دنیا کو دائیں بازو والوں اور متشدد تنظیموں کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سامنا ہے۔
حقیقیت یہ ہے کہ مغربی ممالک دائیں بازو والوں کے پرتشدد اقدامات اور نسل پرستانہ رجحانات میں اضافے کو چھپانے سے بھی قاصر ہیں ۔ جبکہ انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں اور جماعتوں کی سرگرمیوں اور نسل پرستانہ رجحانات میں آنے والی تیزی صرف تارکین وطن کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے یورپی سماج کے لیے سنگیں خطرہ ہے۔